کلکتہ میدان سے آوازیں گونجی‘ ہم یہاں پر پیدا ہوئے ہیں‘ مریں گے بھی یہیں‘ ہمارے پاس کوئی دوسرا ملک نہیں ہے

,

   

کلکتہ۔ اس طرح کے احتجاجی مظاہرہ میں 60سالہ شفیق حسن پہلے مرتبہ شریک ہوئے۔ کلکتہ میں غیر معمولی سردی کے دوران 7جنوری کے بعد سے دن رات‘ پارک سرکس میدان میں‘ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور قومی رجسٹرار برائے شہریت (این آرسی)کے خلاف نعرے لگاتے‘ گیت گاتے وہ یہاں پر موجود ہیں۔

اس احتجاجی دھرنے کے مقام سے وہ پڑوس کے گھر محض بیت الخلاء کے استعمال کے لئے جاتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ”مذکورہ دستاویزات جس کے متعلق حکومت استفسار کررہی ہے‘ ہم کیسے حاصل کریں؟۔ہم غریب ہیں‘ ناخواندہ لوگ ہیں‘ ہم نے دستاویزات بنانے کے متعلق کبھی نہیں سونچا“۔

میدان میں لوگوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے‘ کیونکہ عورتیں اپنے شوہروں او ربچوں کے ساتھ یہاں پہنچ رہے ہیں‘

طلبہ بھی حمایت میں اتر گئے ہیں اور ”آزادی‘ہلا بول“ اور ”انقلاب زندہ باد“ جیسے نعرے لگارہے ہیں۔ شاہین باغ کے احتجاج سے متاثر ہوکر مذکورہ کلکتہ کی تحریک کو ”دوسری جنگ آزادی“ کا نام دیاگیا ہے۔

سال کے اس وقت میں پارک سرکس میدان جو عام طور پر سرکس ٹروپس سے بھرا ہوتا ہے(جیسا اس کا نام ہے)۔

تاہم مذکورہ عورتیں اپنے احتجاج کو جاری رکھنے کے لئے سنجیدہ ہیں‘ اور اب انہوں نے یہاں پر خیمہ نصب کرنے‘ لاؤڈاسپیکر لگانے اور عارضی بیت الخلاء قائم کرنے کی اجازت مانگی ہے۔ جے این یوکیمپس میں 5جنوری کے روزتشدد کے بعد سے یہاں پر ہنگامہ شروع ہوگیاتھا۔

اس میدان کا انتخاب اس لئے بھی کیاگیاہے کیونکہ یہاں پر قومی کانگریس پارک کے لئے کانگریس نے آزادی کی جدوجہد کے دوران متعدد میٹنگ کی تھیں

۔کوئی بھی ترنمول کانگریس کا لیڈر یہاں پر ان کی حمایت میں اب تک نہیں پہنچا ہے۔