نظر کے ملتے ہی ہوش و حواس کھو بیٹھے
یا رب یہ ابتداء ہے تو کیا ہوگی انتہا میری
اداکارہ سے سیاستدان بننے والی کنگنا رناوت اب ملک کی ایک ذمہ دار رکن پارلیمنٹ ہیں۔ برسر قتدار بی جے پی کے ٹکٹ پر وہ ہماچل پردیش میںمنڈی لوک سبھا حلقہ سے منتخب ہوئی ہیں۔ کنگنا اکثر و بیشتر متنازعہ بیان بازیوں کیلئے شہرت رکھتی ہیں۔ انہوں نے ملک کی آزدی کے تعلق سے بھی متنازعہ ریمارکس کئے تھے ۔ سیاست میں باضابطہ داخلہ سے قبل بھی ان کے بیانات اسی نوعیت کے رہے تھے اور سیاست میںداخلہ اور پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہونے کے بعد بھی وہ اسی طرح کے بیانات دے رہی ہیں۔ بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ بننے کے بعد انہوں نے دو مواقع پر کسانوں کے تعلق سے بیانات دئے تھے اور دونوں ہی مواقع پر بی جے پی کیلئے مشکل پیدا ہوگئی تھی ۔ بظاہر بی جے پی نے ان کی سرزنش بھی کی اور یہ بھی واضح کردیا کہ اس طرح کے بیانات کنگنا کی شخصی رائے ہیں اور پارٹی کا ان سے تعلق نہیں ہے ۔ یہ ایک عام صورتحال ہے ۔ تاہم بین السطور میںدیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا کنگنا رناوت اپنے بیانات کے ذریعہ بی جے پی کیلئے مشکل بن رہی ہیں یا پھر بی جے پی کی حقیقت کا اظہار کر رہی ہیں۔ بی جے پی کے تعلق سے مشہور ہے کہ وہ کہرے ہوئے پانی میں کنکر مارتے ہوئے ماحول اور رد عمل کا جائزہ لیتی ہے اور پھر اس کے بعد اپنے حقیقی منصوبوںاور پروگراموںکا باضابطہ اعلان کرتی ہے ۔ کسانوں نے طویل جدوجہد کرتے ہوئے اور کئی شہادتیں دیتے ہوئے جن تین متنازعہ زرعی قوانین کو منسوخ کروایا تھا اب ان کی واپسی کی بات کنگنا کی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ کنگنا کی ذہنی اختراع تھی یا پھر بی جے پی کنگنا کا ان کی امیج کی وجہ سے استعمال کرتے ہوئے اپنے منصوبوں کا اظہار کر رہی ہے ۔ پارٹی کے پاس یہ عذر موجود ہے کہ کنگنا اس طرح کی بیان بازیوں کیلئے جانی جاتی ہیں اور ان کے بیان سے پارٹی عوامی موڈ دیکھتے ہوئے کنارہ کشی بھی کرسکتی ہے ۔ یہ شبہات ضرور پیدا ہونے لگے ہیں کہ بی جے پی متنازعہ مسائل پر ماحول کو جانچ کر اور پرکھ کر اپنے موقف کا اظہار کرتی ہے اسی لئے کنگنا سے عمدا اس طرح کے بیانات دلائے جا رہے ہیں ۔ یہ پارٹی کی حکمت عملی ہوسکتی ہے ۔
جس طرح بی جے پی کہہ رہی ہے کہ کنگنا کا بیان پارٹی کے موقف کے مطابق نہیں ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا بی جے پی میں کسی ایسے فرد کو پارلیمنٹ کا رکن بنادیا جاتا ہے جو پارٹی کے موقف سے اختلاف رکھتا ہو۔ جس کی ذاتی رائے پارٹی کی رائے سے مختلف ہو ۔ یہ سارے سیاست کے کھیل نظر آتے ہیں۔ حالانکہ کنگنا رناوت نے منسوخ شدہ تینوں زرعی قوانین سے متعلق بیان کو واپس لے لیا ہے اور معذرت بھی کرلی ہے تاہم اپوزیشن اور ملک کے عوام کو ایسے معاملات میں چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کی روایت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کسی بھی حساس اور اہمیت کے حامل مسئلہ پر اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کرتے ہوئے حالات کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ بی جے پہی کی روش اور اس کے قائدین کے بیانات کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ بی جے پی کی اپنی حکمت عملی کے تحت ایسے بیانات دئے جا رہے ہیں ۔ اگر رائے عامہ یا عوامی رد عمل موافق نظر آئے تو بی جے پی اچانک ہی اپنے موقف کا اظہار کردے اور اگر شدید مخالفت دکھائی دے اور سیاسی نقصان کا اندیشہ ہو تو پھر بیان واپس لے لیا جائے اور معذرت خواہی کرلی جائے ۔ پارٹی خود کو اس طرح کی بیان بازی سے الگ تھلگ کرلے ۔ سیاسی قائدین کیلئے اس طرح کا طرز عمل کوئی مشکل بھی نہیں ہوتا ۔ سیاستدان وقت اور حالات کے مطابق اپنے موقف کو تبدیل کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اسی لئے وہ ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری جماعت میںشمولیت سے بھی گریز نہیںکرتے اور اپنا نظریہ ہی تبدیل کرلیتے ہیں۔
کنگنا رناوت ہو کہ دوسرے بی جے پی قائدین ہوںوقفہ وقفہ سے متنازعہ بیانات اور اقدامات کے عادی ہیں۔ ن کی اس عادت کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کو جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ ان سے سوال کئے جانے چاہئیں اور حساس اورا ہمیت کے حامل مسائل کے تعلق سے چوکسی اور سنجیدگی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔ بی جے پی کے سیاسی کھیل سے سبھی واقف ہیں اور اس طرح کے کھیل کو سمجھتے ہوئے اسے ناکام بنانے کی ضرورت ہے ۔ اس کی ذمہ داری اپوزیشن جماعتوں اور ملک کے عوام پر بھی عائد ہوتی ہے ۔