کورونا اموات پر ایکس گریشیا

   

مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلفنامہ داخل کرتے ہوئے واضح کردیا کہ ملک میں کورونا کی وجہ سے جو اموات ہوئی ہیںان کے لواحقین کو 50 ہزار روپئے ایکس گریشیا ادا کی جائے گی ۔ یہ رقم ریاستی حکومت کی جانب سے ان کے فنڈز سے ادا کی جائے گی ۔ جو اموات اب تک ہوچکی ہیںان پر اور اگر مستقبل میں بھی کورونا کی وجہ سے اموات ہوتی ہیں تو انہیں بھی یہ امداد دی جائے گی ۔ واضح رہے کہ کئی گوشوں کی جانب سے کورونا اموات پر سرکاری امداد کا مطالبہ کیا جا رہا تھا ۔ یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ وبائی امراض کی وجہ سے ہونے والی اموات پر ایکس گریشیا کی مدد فراہم کرنا حکومتوںکی ذمہ داری ہے ۔ جو لوگ اس وائرس کی وجہ سے فوت ہوچکے ہیںان کے رشتہ دار اور لواحقین حکومتوںسے یہ امداد حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم اصل مسئلہ یہی تھی کہ ملک بھر میں عوام کو ایسی کسی قانونی گنجائش کا علم نہیں تھا ۔ جب کچھ گوشوںسے اس تعلق سے عوام میںشعوربیدار کرنے کی کوشش کی گئی تو اب مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میںحلفنامہ داخل کرتے ہوئے واضح کردیا کہ ریاستی حکومتیں اپنی اپنی ریاست میںہونے والی اموات پرایکس گریشیا ادا کریں گی ۔ مرکز نے ایکس گریشیا کی رقم بھی واضح کردی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی حکومت مرکزی حکومت کے اس حلفنامہ پر کیا موقف اختیار کرتی ہیں کیونکہ ریاستوں میںکسی بھی حکومت نے اب تک ایکس گریشیا کی ادائیگی کااشارہ تک نہیںدیا ہے اور مرکز نے بھی جو حلفنامہ داخل کیا ہے اس پر شائد ریاستوں کے ساتھ کوئی مشاورت بھی نہیں کی ہے ۔ مرکز نے ایکس گریشیا کی ادائیگی اور رقم کا تعین کرتے ہوئے اس کی ذمہ داری ریاستوںپر عائد کردی ہے ۔ اب ملک کی تمام ریاستوں کو اس کا پابند بنانے کی ذمہ داری بھی مرکز پر عائد ہوتی ہے ۔ کئی ریاستیں ایسی ہیںجو اپنی کمزور معاشی حالت کا حوالہ دیتے ہوئے اس ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کریں گی ۔ وہ رقم کی ادائیگی سے بچنے کیلئے کئی کوششیں کرسکتی ہیں۔ ایسے میں اگر مرکزی حکومت نے ریاستوں کے ساتھ مشاورت کی ہوتی اور انہیںاعتماد میںلیا ہوتا تو صورتحال کچھ بہتر ہوتی ۔
کورونا وباء کے دوران ملک بھر میں جوصورتحال پیدا ہوئی تھی وہ سب پر عیاں ہے ۔ کئی دواخانوںمیںکورونا کی وجہ سے بے شمار اموات ہوئی ہیں لیکن ان کو کورونا سے موت کا سرٹیفیکٹ نہیں دیا گیا ۔ کئی اموات گھروں میں ہوئی ہیںجن کا اندراج نہیںہوا ہے ۔ سارے ملک نے دیکھا کہ لوگ کورونا وباء کی دوسری لہر کے عروج کے دوران دواخانوںمیںبستر نہ ملنے کی وجہ سے باہر ہی تڑپ تڑپ کر فوت ہوگئے ۔ انہیںعلاج تو دور کی بات ہے آکسیجن کی سہولت تک دستیاب نہیں ہوئی تھی ۔بین الاقوامی اداروں کے جوسروے سامنے آئے ہیںان کے مطابق ہندوستان میںاموات کی تعداد کو بہت زیادہ بتایا گیا ہے ۔ جوسرکاری اعداد و شمار ہیں ان کے مطابق ملک بھر میںساڑھے چار لاکھ افراد کی موت کا ریکارڈ ہے ۔ لیکن جائزہ لینے پر پتہ چلے گا کہ ان تمام کو بھی کورونا سے موت ہونے کاسرٹیفیکٹ نہیںدیا گیا ہے ۔موت کی وجہ کودیگر عوارض یا پیچیدگیوںکے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ملک بھر میںیہی صورتحال رہی تھی ۔ کوئی ریاست شائد ہی اس سے محفوظ رہی ہو ۔ ہر ریاست میںاموات کی تعداد اور متاثرین کی تعداد کے بارے میںتضاد ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار میںانتہائی کم تعداد بتائے جانے کی شکایات بھی سامنے آئی ہیںاور بین الاقوامی اداروں کے جو سروے تھے ان کی رپورٹس میں بھی ایسا ہی دعوی کیا گیا ہے ۔ اب جبکہ ایکس گریشیا کی بات آئی ہے تو یہ صورتحال ان لوگوں کیلئے اور بھی پیچیدہ ہوسکتی ہے جن کے اقربا کورونا کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں۔
مرکزی حکومت نے جو حلفنامہ داخل کیا ہے وہ در اصل اس سارے عمل سے خود کو بے تعلق کرلینے کی کوشش ہے اور ساری ذمہ داری ریاستی حکومتوں پر عائد کی جا رہی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں عوام کو یا جن کے گھروں میں اموات ہوئی ہیں ان کو کوئی راحت ملنے کی امید نہیں ہے ۔ مرکزی حکومت کو ایک ذمہ دار کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے ریاستوں کے ساتھ اشتراک کرنے اور جودعوے پیش کئے جائیںگے ان کی یکسوئی میں مدد کرنے کی ضرورت ہے ۔ ریاستی حکومتوں کو بھی اس سارے عمل کو پیچیدہ بنانے کی بجائے عوام کو راحت پہونچانے کے مقصد سے کوئی سہل اور موثر طریقہ اختیار کرنے اور ایکس گریشیا ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔