کورونا اموات کی حقیقت

   

وباء کی زندگی کیا ہے، غم کا دریا ہے
نہ جینا یہاں بس میں نہ مرنا یہاں بس میں عجب دنیا ہے

کورونا وائرس کا بھوت اب بھی کئی اشکال میںہمارا تعاقب کررہا ہے ۔ کورونا کے اثرات ویسے تو زندگی کے تقریبا ہر شعبہ پر مرتب ہوئے ہیں۔ ہر شعبہ اس کے نتیجہ میں بری طرح سے متاثر رہا ہے ۔ لوگوں کے کام کاروبار اور تجارتیں بری طرح سے متاثر ہوئی ہیں۔ کئی ممالک کی معیشتیں تباہ ہوگئی ہیں۔ اس کی مثال سری لنکا میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں کئی دہوں کا سب سے سنگین معاشی بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ اس کے علاوہ ہندوستان بھی کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثر ہو کر رہ گیا ہے ۔ ہندوستان بھر میں عوام کو بے طرح مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ بے شمار خاندان اجڑ گئے ہیں۔ لاکھوںافراد کی موت واقع ہوگئی ہے اوریہ خاندان بے یار و مددگار ہوگئے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں بھی کورونا کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم کورونا کی وجہ سے ہونے والی اموات کا جہاں تک سوال ہے یہ اب بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہیں ۔ کئی سرکاری اور بین الاقوامی ایجنسیوں کے اعداد و شمار میں بہت زیادہ تضاد پایا جاتا ہے ۔ کئی گوشوں کی جانب سے سرکاری اعداد و شمار پر شبہات کا اظہار کیا گیا ہے ۔ حکومتوں کے دعووں پر ویسے بھی بھروسہ کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ حکومتوں نے تو کورونا بحران کے دوران آکسیجن کی قلت کی وجہ سے کسی بھی موت کی تردید کردی تھی ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کے کئی شہروں میں آکسیجن کی قلت کے نتیجہ میں ہزاروں افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ۔ لوگ سانس لینے کو تڑپ رہے تھے ۔ دواخانوں میں بستر تک دستیاب نہیں تھے ۔ ڈاکٹرس اور عملہ کی قلت کا الگ سے سامنا تھا ۔ ادویات بھی دستیاب نہیں ہو رہی تھیں۔ عوام نے بہت زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا کیا تھا ۔ اس کے باوجود حکومتیں یہ دعوی کر رہی ہیں کہ آکسیجن کی قلت کے نتیجہ میں ایک بھی موت نہیں ہوئی ہے ۔ جب سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق کورونا اموات پر معاوضہ دینے کی بات آئی تو حکام نے کورونا سے موت کی توثیق کا صداقتنامہ جاری کرنے سے بھی گریز کیا ۔ عوام پچاس ہزار روپئے کی معمولی رقم کا معاوضہ حاصل کرنے کئی طرح کی کوششیں کرتے دیکھے گئے ۔
عالمی تنظیم صحت کی جانب سے کل ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے دعوی کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا کی وجہ سے ہونے والی اموات کے جو سرکاری اعداد و شمار ہیں وہ حقیقی تعداد سے بہت کم ہے ۔ ہمارے ملک ہندوستان کے تعلق سے دعوی کیا گیا ہے کہ یہاں جملہ 47 لاکھ اموات ہوئی ہیں۔ ہندوستان میں ان سے کافی کم تعداد میں اموات کا اعتراف کیا گیا ہے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا بحران کے دوران ہم نے دیکھا کہ لوگوں کو اپنے عزیزوں کی آخری رسومات ادا کرنے تک گھنٹوں انتظار کرنا پڑ رہا تھا ۔شمشان گھاٹوں میں لوگ پورا پورا دن آخری رسومات ادا کرنے کے منتظر رہے تھے ۔ ایک ایک دن میں ایک ایک شمشان میں سینکڑوں افراد کی آخری رسومات ادا کردی گئیں ۔ قبرستانوں کا بھی حال ان سے مختلف نہیں تھا ۔ دریائے گنگا کے کنارے سینکڑوں افراد کو ریت میں دبا دیا گیا کیونکہ ان کے رشتہ دار آخری رسومات تک ادا کرنے کے موقف میں نہیں تھے ۔ دواخانوں سے یومیہ درجنوں افراد کی نعشیں نکل رہی تھیں ۔ ہم نے تقریبا سبھی نے اپنے رشتہ داروں کو کھویا ہے ۔ اس کے باوجود حکومتیں اور سرکاری ادارے ان اموات کی تصدیق تک کرنے سے گریز کرتے دکھائی دئے ہیں۔ ملک کے عوام کو ہی ہر طرح کی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں پچاس ہزار روپئے معاوضہ کیلئے بھی سرکاری دفاتر کے چکر کاٹنے پڑے ۔ کئی خاندان تو ایسے ہیں جن کے اپنے فوت ہوچکے ہیں لیکن ان کے پاس اس کا صداقتنامہ نہیں ہے ۔
اب جبکہ عالمی تنظیم صحت جیسے ادارے نے اتنی بھاری تعداد میں اموات کی توثیق کی ہے تو حکومت کو بھی اس تعلق سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کو من و عن قبول کرلیا جائے ۔ تاہم حکومت کو ملک میں ہوئی اموات کا حقیقی جائزہ لینے اور حقیقی تعداد کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ بات صرف اعداد و شمار کو عوام کے سامنے لانے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ جو لوگ اپنے عزیزوں سے محروم ہوئے ہیں انہیں معاوضہ بھی ادا کیا جاسکتا ہے ۔ ان کیلئے حکومت کچھ فلاحی اور امدادی اسکیمات کا اعلان بھی کرسکتی ہے ۔ جو لوگ اپنوں سے محروم ہوچکے ہیں وہ تو واپس نہیں آسکتے لیکن ان کے غموں کا کچھ حد تک مداوا کرنے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے اور اس کیلئے حقیقی تعداد کا تعین کرنا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔
تلنگانہ کی سیاست اور عوام
تلنگانہ کی سیاست میں اچانک ہی تیزی پیدا ہونے لگی ہے ۔ ٹی آر ایس اور بی جے پی کے اطراف گھومتی سیاست میں اب اچانک ہی کانگریس کا بھی تذکرہ ہونے لگا ہے ۔ راہول گاندھی کے دورہ سے تلنگانہ کانگریس قائدین میں بھی جوش و جذبہ پیدا ہونے لگا ہے ۔ پارٹی کارکن سرگرم ہونے لگے ہیں اور ٹی آر ایس کی سیاسی تنقیدیں اب بی جے پی کی بجائے کانگریس پر ہونے لگی ہیں۔ چند دن قبل وزیر آئی ٹی کے ٹی راما راؤ نے بھی کہا تھا کہ ریاست میں اصل مقابلہ کانگریس اور ٹی آر ایس کے درمیان ہی ہے ۔ اس صورتحال میں ریاست کے عوام تذبذب کا شکار ہونے لگے ہیں کہ وہ کس کی تائید کریں اور کس کی باتوں پریقین کریں۔ جہاں تک عوامی موڈ کا سوال ہے تو یہ حقیقت ہے کہ ٹی آر ایس کی مقبولیت سبھی جماعتوں سے زیادہ ہے لیکن کانگریس اور بی جے پی بھی اس سے پیچھے نہیںرہنا چاہتیں۔ بی جے پی ایک مخصوص انداز میں مہم چلا رہی ہے اور ابھی یہ کہا نہیں جاسکتا کہ تلنگانہ میں بھی فرقہ پرستی کا ایجنڈہ کامیاب ہوگا یا نہیں لیکن کانگریس ضرور اپنے موقف کو مستحکم کرسکتی ہے ۔ اس کیلئے شرط یہی ہے کہ عوام کے درمیان رہتے ہوئے ان کے مسائل اٹھائے جائیں اور پارٹی قائدین میں اختلافات کو ختم کیا جائے ۔ ان میںاتحاد پیدا کیا جائے ۔ ریاست کے عوام کی جہاں تک بات ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ابھی انتظار کرو اور دیکھوں کی پالیسی اختیار کریں گے ۔