دو تا تین لہروں میں ساری دنیا میں تباہی مچانے اور لاکھوں افراد کی زندگیوں کو ختم کرنے کے بعد کورونا کا خطرہ ایک بار پھر سے سر ابھارنے لگا ہے ۔ دنیا بھر میں لوگ ایک بار پھر اس وائرس کے خوف میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔ حکومتوں کی جانب سے بھی عوام کو اس سے نمٹنے کیلئے ابھی سے احتیاط برتنے کے مشورے شروع کردئے گئے ہیں۔ سائنسدانوں کی جانب سے کورونا کی نئی شکل کے سامنے آنے اور عوام پر اس کے خطرناک اثرات کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں جس کے بعد حکومتیںسرگرم ہوگئی ہیں۔ چین کے بعد جاپان ‘ امریکہ ‘ کوریا اور برازیل میں اس کے پھیلاؤ میں تیزی آنے لگی ہے ۔چین میں لاکھوں افراد اس وائرس سے متاثر ہونے لگے ہیں اور حکومت کے اقدامات بھی اس کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام ہی ثابت ہو رہے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی اس کے تعلق سے چوکسی اختیار کرنے کے مشورے شروع ہوگئے ہیں۔ حکومت نے صورتحال کا جائزہ لیا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے خود بھی کورونا پر جائزہ اجلاس منعقد کیا تھا اور آج وزیر صحت نے بھی اس خطرہ پر ایک اجلاس میں غور و خوض کیا ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستوں کو اس تعلق سے مشورے دئے جا رہے ہیں۔ ریاستی سطح پر حکومتیں اپنے اپنے طور پر اقدامات شروع کرتی نظر آر ہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صورتحال کے اندیشوں کو نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ اس سے نمٹنے کیلئے ابھی سے تیاریاں کی جائیں۔ وائرس کے پھیلنے اور عوام کے اس سے متاثر ہونے تک انتظار نہ کیا جائے بلکہ قبل از وقت ہی اس تعلق سے اقدامات کئے جائیں۔ دواخانوں کی صورتحال کا جائزہ لیا ۔ ادویات کی قلت کو دور کرنے کیلئے ابھی سے حکمت عملی تیار کی جائے ۔ آکسیجن اور وینٹیلیٹرس کی دستیابی کو یقینی بنانے اقدامات کئے جائیں۔ سرکاری مشنری کو اس خطرہ سے نمٹنے کیلئے فوری متحرک کردیا جائے ۔ مرکزی حکومت اپنی سطح پر اور ریاستی حکومتیں اپنی سطح پر اس سے نمٹنے کیلئے اقدامات شروع کریں تاکہ اگر واقعی یہ خطرہ حقیقی روپ اختیار کرتا ہے تو اس سے موثر ڈھنگ سے نمٹا جاسکے ۔
کورونا کی دو لہروں نے جس طرح ساری دنیا میں قیامت صغری کا منظر پیش کیا تھا اس سے ہندوستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا تھا ۔ ہندوستان میں بھی جو تباہی آئی تھی وہ کچھ کم نہیں کہی جاسکتی ۔ اس کے اثرات نے عام انسان کو بہت زیادہ پریشان کردیا تھا ۔ جہاں لوگ اپنی اور اپنوں کی زندگی بچانے کی فکر میں ڈوبے ہوئے تھے انہیں کہیں سے کوئی درکار مدد نہیں مل پائی تھی ۔ لوگ آکسیجن جیسی بنیادی ضرورت کی عدم دستیابی کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے چلے گئے ۔ ملازمتوں اور تجارتوں پر فرق پڑا ۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد اپنے روزگار سے محروم ہوگئے ۔ ان کی ملازمتیں ختم ہوگئیں۔ کئی خاندان بے یار و مدد گار رہ گئے ۔ زندگی بچانے والی ادویات انہیں دستیاب نہیں ہو رہی تھیں۔ دواخانوں میں بستروں کی قلت ہوگئی تھی ۔ کئی افراد کی شکایت یہ بھی رہی کہ دواخانوں میں کسی علاج کے بغیر لاکھوں روپئے ان سے اینٹھ لئے گئے اس کے باوجود ان کے اپنوں کی زندگیاں نہیں بچ پائیں۔ لوگ سینکڑوں بلکہ ہزاروں کیلومیٹر کا صفر پیدل طئے کرتے ہوئے اپنے آبائی مقامات کو روانہ ہونے پر مجبور ہوگئے ۔ پیدل سفر کرتے ہوئے کئی لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے ۔ ایک وقت کے کھانے کیلئے انہیں پریشان ہونا پڑ رہا تھا ۔ انسانی بے بسی کی منہ بولتی تصویر ہر جگہ دکھائی دے رہی تھی ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ جو لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے ان کی آخری رسومات ادا کرنا تک بھی ممکن نہیں ہو رہا تھا ۔ دریائے گنگا کے کنارے سینکڑوں نعشیں تیرتی رہیںاور لوگ بے بسی کی مورت بنے رہے ۔
سابق کے دو تجربات اور انتہائی پریشان کن و مشکل ترین حالات ہمارے سامنے ہیں۔ دو لہروں میں ہمیں جن تکالیف و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اب جبکہ کورونا کی ایک اور خطرناک لہر کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں تو ایسے میں ابھی سے حکومتوں کو حرکت میں آنا چاہئے ۔ ابھی سے تمام درکار اقدامات کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ تباہی نہ ہونے پائے ۔ عوام کی مشکلات کو کم سے کم رکھا جاسکے۔ طبی اور دیگر ضروریات کی بروقت تکمیل کو یقینی بنایا جاسکے ۔ اگر حالات بگڑتے ہیں تو عوام کو ممکنہ حد تک محفوظ رکھا جاسکے ۔ صرف عوام کو احتیاط برتنے کے مشورے دیتے ہوئے حکومتیں بری الذمہ نہیں ہوسکتیں۔ انہیں اپنے حصہ کی ذمہ داری بھی پوری کرنی چاہئے ۔