کورونا وائرس کی دہشت سے ساری دنیا لرزہ براندام ہے ، لوگ خوف و ہراس میں ہیں ، روز بہ روز فکرمندی اور پریشانی میں اضافہ ہورہا ہے ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ لوگ باشعور ہیں ، اور وائرس کی تباہ کن صورتحال سے باخبر ہیں، احتیاطی تدابیر کررہے ہیں۔ سوشیل میڈیا نیز وائرس سے متعلقہ معلومات کی بہتات کی بناء شعور بیداری میں کوئی مشکلات پیش نہیں آرہی ہیں چونکہ یہ وائرس تاحال معلومات کے مطابق کسی انسانی کارکردگی کا نتیجہ نہیں بلکہ حیوان سے حیوان میں پھیلنے والا وائرس ہے جو انسانوں میں منتقل ہوا اور تیزی سے مختلف ممالک میں پھیل گیا ہے اور ہزاروں لوگ لقمۂ اجل ہوگئے ہیں اور صحت عامہ کے ماہرین کے مطابق لوگوں کا کثیرتعداد میں کسی مقام پر جمع ہونا پرخطر ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ان میں ایک بھی متاثر ہو تو وہ متعدد افراد کو اس مہلک وائرس سے متاثر کرسکتا ہے ۔ بناء بریں حکومت اور ادارہ صحت عامہ کی ہدایات کی روشنی میں تمام اجتماعی پروگرامس مذہبی مراسم و عبادات ملتوی کرنا ناگزیر ہے ۔ اسلامی نقطہ نظر سے اہل اسلام نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ و عیدین باجماعت مسجد اور عیدگاہ میں ادا کرنے کے پابند ہیں ۔ کورونا وائرس کی بناء مساجد میں نماز پنجگانہ بطور خاص نماز جمعہ کے اہتمام سے متعلق عوام الناس میں شدید قسم کی بے چینی پائی جاتی ہے ۔ چنانچہ گزشتہ ہفتہ Muslim Community of the Quad Cities (مسلم کمیونٹی آف دی کواڈ سٹیز امریکہ ) میں نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ کو جاری رکھنے یا جماعت کو ملتوی کرنے ایک میٹنگ ہوئی اور شرکاء اجلاس کا سب سے پہلا سوال یہ تھا کہ اس قسم کی کوئی صورتحال عہدنبوی یا عہد صحابہ کرام میں پیش آئی یا نہیں ؟
عہدنبویؐ میں جنگ اور قحط ، نیز شدید خوف و ہراس کی صورتحال نیز خفیف وبائی امراض کا ذکر تو ملتا ہے لیکن کوئی تباہ کن جان لیوا سریع الانتشار متعدی امراض کا ذکر نہیں ملتا جو بیک وقت سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی ہلاکت کا سبب بنے ہوں تاہم حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عہد میں طاعونِ عمواس کا ثبوت ملتا ہے جس میں پچیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین شہادت پائے اور نبی اکرم ﷺ نے اس کو قیامت کی چھ اہم نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دی تھی ۔ چنانچہ حضرت عوف بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جنگ تبوک کے موقعہ پر فرمایا قیامت سے قبل چھ نشانیوں کو شمار کرو (۱) میری وفات (۲) بیت المقدس کی فتح (۳) عمومی اموات ( یعنی عمومی موت کے واقعات رونما ہونگے ) بکریوں کی بیماری کی طرح جب وہ لگتی ہے تو ناک سے کچھ مادہ نکلتا ہے اور اس میں بکریاں فی الفور ہلاک ہوجاتی ہیں۔ ( ۴) مال و دولت کا عام ہوجانا کہ اگر کسی آدمی کو سودینار دیئے جائیں تو بھی وہ ناراض رہیگا (۵) ایسے فتنہ کا ظہور ، عرب کا کوئی گھر نہیں ہوگا مگر وہ فتنہ اس میں داخل ہوجائیگا (۶) تمہارے اور رومیوں کے درمیان صلح کا معاہدہ ہوگا اور وہ دغا کریں گے اور تم پر حملہ آور ہوں گے اسی جھنڈوں کے تلے اور ہر جھنڈے کے تلے بارہ ہزار ہوں گے ۔ ( بخاری )
پس ۱۸ھ میں حضرت عمر فاروقؓ مدینہ منورہ پر حضرت علی مرتضیٰؓ کو واں مقرر کرکے ملک شام کے لئے روانہ ہوئے ۔ آپ کے ہمراہ مہاجرین اور انصار کے کبار مشائخ تھے جب آپ تبوک کے بعد اردن کے حدود کے پاس مقام ’سرغ‘‘ پر قیام کئے تو وہاں ملک شام کے امراء نے آپ کا استقبال کیا اور اطلاع دی کہ ملک شام کی سرزمین متاثر ہے ور وباء عام ہورہی ہے ۔ آپ نے سرکردہ حضرات سے مشورہ کیا اور بعد مشاورت واپس ہونیکا اعلان فرمایا ۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ جو اس وقت ملک شام کے امیر تھے وہ واپسی کی اس رائے کے مخالف تھے ، انھوں نے بے ساختہ کہا : ’’امیرالمؤمنین ! کیا آپ اﷲ کی تقدیر سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے واپس ہورہے ہیں ‘‘ ۔ یہ نہایت سخت جملہ تھا شاید حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کے علاوہ کوئی یہ جملہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس موقعہ پر ایک اُصولی قاعدہ بیان فرمایا جو تاقیامت اہل اسلام کی رہبری کرتا رہیگا ۔ فرمایا :’’ہاں ! ہم اﷲ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف لوٹ رہے ہیں ‘‘ ۔ پھر آپ نے آسان پیرایہ میں ایک مثال سے اس کی تشریح کی کہ ’’تمہاری کیا رائے ہے کہ تمہارے پاس چند اونٹ ہوں اور تم کسی ایسی وادی میں پہنچو اس کے ایک جانب سرسبزی و شادابی ہو اور دوسری طرف خشک و قحط زدہ ہو ۔ اگر تم سرسبز وادی میں چراؤگے تو بھی وہ تقدیر الٰہی سے ہے اور اگر خشکی میں چراؤ گے تب بھی تقدیر الٰہی کے تابع ہے‘‘ ۔ اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بھی پہنچ گئے جو مشاورت کے وقت موجود نہیں تھے ۔ ان کو اطلاع ہوئی تو انھوں نے کہامجھے اس بارے میں علم ہے میں نے نبی اکرم ! کو فرماتے ہوئے سنا ’’جب تم کسی مقام پر وباء کے بارے میں سنو تو وہاں مت جاؤ اور وباء کسی ایسے مقام پر آجائے جہاں پہلے تم موجود ہو تو وہاں سے فرار ہوتے ہوئے مت نکلو۔
بعد ازاں حضرت عمر فاروقؓ مدینہ منورہ واپس ہوگئے اور حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اپنے وفد کے ساتھ ملک شام واپس ہوگئے ۔ کچھ عرصہ نہیں گزرا وہ وباء دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک شام میں پھیل گئی اور ہزاروں صحابہ شہید ہوگئے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابوعبیدہ بن جراح کی قیادت کو اُمت کے حق میں سمجھتے تھے ۔ انھوں نے حضرت ابوعبیدہؓ کو طلب کرتے ہوئے ایک خط لکھا کہ ’’مجھے ایک اہم ضرورت لاحق ہوئی ہے میں اس لئے تم سے فی الفور ملنا چاہتا ہوں پس میرا عزم ہے کہ جونہی تم میرا خط پڑھو اس کو اپنے ہاتھ سے رکھنے سے قبل میری طرف چلے آؤ‘‘ ۔
حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ محسوس کرلئے کہ حضرت امیرالمؤمنین ان کو وبائی مقام سے نکالنا چاہتے ہیں اُنھوں نے جواب میں لکھا کہ آپ کی کیا ضرورت ہے مجھے معلوم ہے ۔ میں مسلمانوں کے ایک لشکر میں ہوں ، اُن کو چھوڑکر مجھے اپنی جان کی کوئی خواہش نہیں ہے میں ان کو چھوڑنا نہیں چاہتا اس وقت تک کہ اﷲ تعالیٰ میرے اور ان کے بارے میں اپنا فیصلہ ظاہر نہ فرمادے لہذا آپ مجھے اپنے عزم و ارادہ سے خلاصی عطا کیجئے اور مجھے اپنے لشکر میں رہنے کی اجازت دیدیں۔ جب حضرت عمر فاروقؓ نے ان کا جواب پڑھا تو بہت رونے لگے ۔ آخرکار وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا اور حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اس مہلک وباء سے متاثر ہوگئے ۔ اس موقعہ پر آپ نے ایک جامع خطبہ دیا جس میں آپ نے اس وباء کی حقیقت کو ظاہر فرمادیا اور تاقیامت اُمت کو ایسے مشکل حالات میں نہایت اطمینان اور توکل کے ساتھ رہنے کا پیغام دیا ۔ فرمایا: اے لوگو ! یہ (وباء کی ) تکلیف تمہارے لئے رحمت ہے اور تمہارے نبی کی دعاء ہے اور تم سے قبل صالحین کی موت کا ذریعہ ہے ۔پھر بارگاہ الٰہی میں دعاء کرتے ہیں پروردگار ! اس رحمت سے مجھے حصہ نصیب فرما چنانچہ اس مرض میں آپ وفات پاجاتے ہیں ۔ آپ کے بعد حضرت معاذ بن جبلؓ امیر مقرر ہوتے ہیں اور آپ بھی وہی کلمات دہراتے ہیں کہ لوگو! یہ وباء ( تمہارے لئے عذاب نہیں بلکہ ) رحمت ہے ، تمہارے نبی کی دعاء ہے اور تم سے قبل صالحین کی موت کا ذریعہ ہے ۔ مزید یہ کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے اپنے اہل کے لئے اس رحمت سے حصہ کی اﷲ تعالیٰ سے دعاء مانگی چنانچہ آپ کی اولاد آپ کے سامنے انتقال کرگئی بعد ازاں آپ متاثر ہوئے اور وفات پائے ۔
حضرت ابوعبیدہؓ اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کے خطبہ میں دو باتیں بطور خاص قابل غور ہیں(۱) یہ وباء رحمت ہے کیونکر ہے (۲) انھوں نے اس کو نبی کی دعاء سے کیوں تعبیر کیا اس کو سمجھنے کے لئے دیگر روایات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے انھوں نے رسول اﷲ ﷺ سے طاعوان سے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ عذاب تھا جس پر اﷲ چاہتا بھیجتا پس اﷲ تعالیٰ نے اس کو مومنین کے لئے رحمت بنادیا ہے ۔ ( بخاری )
بخاری کی روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ نے طاعون کو ہرمسلمان کے لئے شہادت قرار دیا۔ علاوہ ازیں بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کا وباء میں مبتلا ہونا گناہوں سے کفارہ ہے وہ اس دنیا سے پاک و صاف ہوکر رخصت ہوتا ہے ۔ نیز ایک روایت کے مطابق نبی اکرم ﷺ اس اُمت کی موت نیزے سے یا طاعون سے کے جواب میں طاعون کو اختیار فرمایا لہذا کوئی مسلمان احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود وبائی امراض میں مبتلا ہوجائے تو وہ مایوس و نااُمید ہونے کی بجائے اس کو اپنے لئے رحمت و نجات کا ذریعہ سمجھے اور مطمئن و پرسکون رہے۔
جب حضرت معاذ بن جبل فوت ہوئے تو حضرت عمرو بن عاصؓ امیر مقرر ہوئے اور انھوں نے خطبہ میں اس وباء کی حقیقت کو بیان کیا کہ اے لوگو! یہ بیماری جب واقع ہوتی ہے تو وہ بلاشبہ آگ کی طرح شعلے بنکر پھیلتی ہے ۔ لہذا تم اس سے تحفظ کے لئے پہاڑوں میں منتشر ہوجاؤ ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح آگ جلانے کی چیزوں کو پاتی ہے تو ان کو جلاتی ہے اور شعلے بنکر پھیلتی ہے اور اگر آگ موجود ہو اور اس کے اطراف میں جلنے کی کوئی چیز نہ ہو تو وہ خودبخود اسی مقام پر بجھ جاتی ہے ۔ چنانچہ ایسی ہی ہوا لوگ پہاڑوں میں پھیل گئے ۔ ایک جگہ جمع ہونے سے پرہیز کئے تو بہت جلد اس وباء کا خاتمہ ہوگیا ۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ حضرت عمرو بن عاصؓ کے حکم پر صحابہ کرام جب پہاڑوں پر منتشر ہوگئے تو انھوں نے جمعہ کا باجماعت اہتمام کیا یا نہیں کیا؟ البتہ یہ ضرور ملتا ہے کہ حضرت عمر فاروق نے ان کے اس فیصلہ پر نااضگی ظاہر نہیں کی ۔ واﷲ اعلم ۔
آخرکار اجلاس میں یہ طئے پایا کہ جب حکومت یا صحت عامہ کے ذمہ داران اسکولس ، کالجس آفسس کے ساتھ عبادتگاہوں میں اجتماعی طورپر عبادت کو ملتوی کرنے کی ہدایات جاری کیں تو اس کے مطابق عمل کیا جائیگا ۔
نوٹ : تاہم اپنے اپنے مقام پر جمعہ قائم کرنے کی سعی کرنے پر زور دیا جائیگا اور نوجوان لڑکوں کو اس دوران جمعہ پڑھانے اور خطبہ دینے کی آن لائن ٹریننگ دی جائیگی۔