(اسلامی تعلیمات کی روشنی میں)
اللہ سبحانہ کے قہر وناراضگی کا ایسامشاہدہ دنیا نےشاید اس سے پہلے نہ کیا ہوگا اس وقت کورونا وائرس کی وباء کی وجہ گویا قیامت صغری برپا ہے ،اللہ سبحانہ نے قیامت کبری کے بعد برپاہونے والےروز حشر کی ہولناکی کی منظر کشی کی ہے ، اس وقت نفسا نفسی کا عالم ہوگاکسی کو اپنو ں بیگانوں کاکوئی ہوش نہیں ہوگا، ہر کوئی اپنی مصیبت کے دلدل میں پھنساہوگا ۔ ’’اس دن انسان اپنے بھائی سے اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اولاد سے راہ فرار اختیار کریگا، اس دن ہر ایک کو ایسی فکر لاحق ہوگی جو اس کو(حال وماحول سے) بے پرواہ کردے گی‘‘۔ (عبس؍ ۳۴تا۳۷) یعنی اپنے اعزہ واقارب اور دوست واحباب کی اس کو کوئی فکر دامن گیر نہیں ہوگی وہ بھولے سے بھی ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرے گا ۔ ماہر اطباء کی تحقیق یہ ہےکہ کورونا وائرس کے جرثوموں کوبآسانی دیکھا جانا ممکن نہیں ،اس تحقیق نے اہل ایمان کے ایقان کو اور پختہ کردیا ہےکہ یہ اَن دیکھے جراثیم یقینا دکھائی نہ دینے والے خالق ومالک کے فرستادہ ہیں ۔آسمانوں اور زمین کے سارے لشکر اللہ سبحانہ کے زیر فرمان ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالی سب پر غالب اور حکیم ہے ۔ (الفتح ؍۷)اللہ سبحانہ کے لشکر وں کو سوائے تمہارے رب کے اور کوئی نہیں جانتا۔( المدثر؍۳۱)کورونا وائرس کے اَن دیکھے جرثوموںنے سارے عالم سے چین وسکون کو رخصت کردیا ہے ،فرعون صفت مغرور ومتکبر گھمنڈی حکمرانوںاور سوپر پاور طاقتوںکے پیروں تلے زمین کھسک گئی ہے، ہر سو افراتفری کا عالم ہے ،ہر ایک کو اپنی پڑی ہے ایسے مناظر بھی دیکھنےکو مل رہے ہیں کہ بیمار اپنے چہیتوں کی چاہتوں سے محروم ہیں ،کہیں طبی نقطہ نظر کی بناء قریبی رشتہ داروں کو بیماروں سے دور رکھا جارہا ہے تو کہیں رشتہ دار خود ڈر خوف کی وجہ اپنے ان مریضوں کے قریب جانے سے گھبرارہے ہیں ،دلو ں کو دہلادینے والے ایسے منا ظر بھی سامنے آئے ہیں جس میں معصوم اور چھوٹے بچوں کو بیماری کی وجہ طبی مراکز لیجایا جارہا ہے لیکن روتے بلکتے سسکتے بچے حکومت کی فراہم کردہ گاڑیوں میںماں باپ کے بغیرتنہا بیٹھ کر جانے کیلئے تیار نہیں ہیں ،اس کے باوجود بزور وجبر ان کو اس بات پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ الامان والحفیظ۔ایسے واقعات میں شدید اندیشہ اس بات کا ہے کہ یہ بچے کورونا وائرس کی وجہ نہیں بلکہ خوف ودہشت کے باعث موت کے آغوش میں پہنچ سکتے ہیں ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بیماروں کے رشتہ داروں اور خاص طور پربیمار معصوم بچوں کوان کے ماں باپ سےہرگز دور نہ کیا جاتا ۔ اطباء، نرسس اور طبی عملہ محفوظ لباس زیب تن کئے ہوئے جس طرح کورونا کے مریضوں کاعلاج کررہے ہیں اسی طرح ان بیماروں کے قریبی رشتہ داروں کو حفاظتی اسباب اختیار کرکے مریضوں کی تیمارداری ضرور کرنی چاہئے ،مریضوں کی صحت میں دوائوں کے ساتھ اس کا بڑا اہم رول ہے ،مصیبت زدہ انسان کواپنوں کے قرب سے بڑی تسلی ملتی ہے ایسے میں وہ تسلی وتشفی کے دو میٹھے بول سننے کو بیچین وبیتاب رہتے ہیں ،اس اہم اور بنیادی بات کو نظر انداز کرکے بیماروں اور خاص طور پر معصوم بچوں کو اپنے چہیتوں کی قرب سے محروم کردیا جائے اور یکا وتنہا ان کو طبی مراکز میں محصور کردیا جائے تو یہ زندگی ہی میں گویاان کو درگور کرنے کے مترادف ہوگا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر فوت ہونے والوںسے متعلق ایسے دردناک مناظر دیکھے جارہے ہیںجو خون کے آنسو رلائیںتو بھی کم ہے ،دنیا میں انسان اپنوں پر جان چھڑکتا ہےبسا اوقات ان کی محبت وچاہت میں سب کچھ بھول بھال جاتا ہے یہاں تک کہ بعضوں کو تو اللہ سبحانہ وتعالی عز شانہ اور اس کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ بھی یاد نہیں رہتے اورنہ اسلام کے فطری احکام یاد آتے ہیں ، اس غفلت کا نتیجہ تو ظاہر ہے کبھی اچھا نہیں ہوسکتا ، اس انجام سے انسان خاص طور پر ایمان والوں کو ہرگزغافل نہیں رہنا چاہئے ۔حدیث پاک میں وارد ہےتین چیزیں انسان کے ساتھ قبرتک جاتی ہیں۔مال ،عزیز واقارب اور اعمال صالحہ، سوائے اعمال صالحہ کے دونوں چیزیں میت کاساتھ چھوڑدیتی ہیں اس حدیث پاک سےیہ بات کا درس ملتاہے کہ صرف انسان کے اعمال صالحہ ہی اس کے ساتھ جاتے ہیں ۔زر ،زمین ، جائیداد، عزیز واقارب سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔قرآن پاک کےاس ارشاد سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔’’مال واولاد تودنیاہی کی زینت ہیں ، البتہ باقی رہنے والی نیکیاں باعتبار ثواب اور باعتبار انجام آپ کے رب کے پاس بہتر ہیں‘‘۔(الکہف؍۴۶) یعنی اعمال صالحہ ہی باقیات صالحات ہیں بحیثیت مجموعی اسلام کے سارے احکام اوامر ونواہی ان کو شامل ہیں،جو اخروی ابدی زندگی کے ساتھی ہیں۔
اس پس منظر میں کورونا سے فوت ہونے والوں کی حالت غمناک اور عبرت آمیزہے ایسے کئی ایک واقعات الکٹرانک میڈیا سے وائرل ہورہے ہیں جو روزانہ اخبارات کی سرخیوں میں ہیں ، کئی ایک غیر مسلم میتوں کو ان کے رشتہ داروں نے ہاتھ لگانے ، اپنے گھر لے آنے یہاں تک کہ ان کی آخری رسومات کا فریضہ انجام دینے سے شدید طور پرانکار کردیاہے، ایسے میں غیرت مند مسلمانوں نے انسانی احترام اور ان کے بنیادی حق کے پیش نظر غیر مسلم میتوں کی آخری رسومات انجام دی ہیں اپنے کاندھوں پراٹھا کران کو شمشان گھاٹ تک پہنچایا اوران کے مذہب کی رعایت کرتے ہوئے ان کی چتا کو سپرد آتش کیا ہے ،انسانیت نوازی اور بھائی چارہ کے یہ ایسے مناظر ہیں جن سے انسانیت وشرافت کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے جس سے ہر دردمند دل انسان کی آنکھیں نم ہوئی ہیں ،اور ملک گیر نفرت کی لگائی گئی آگ بجھانے میںاس نے فائر انجن کا کام کیا ہے ،یقینا انسانیت نواز ان واقعات میں ہندوستانی رواداری کی جھلک ملتی ہے،جہاں مسلمانوں کی رواداری کے ایسے قابل قدر وناقابل فراموش مناظر دنیا دیکھ رہی ہے وہیں کچھ مسلمانوں نے مہلک کورونا سے فوت ہونے والوں کو اس خوف سے کہ کہیں یہ وباء ہماری بستی میںنہ پھیل جائے مسلم قبرستانوں میں تدفین سے سختی کے ساتھ روکا ہے ،بعض واقعات میں شہر کے سات یا آٹھ مسلم قبرستانوں میں تدفین کی کوشش ناکام ثابت ہونے پر مسلم میتوں کواسلامی طریقہ کے مطابق سپرخاک کرنے کے بجائے مجبوراً غیرمذاہب والوں کی میتوں کی طرح نذر آتش کرنا پڑا ۔ العیاذ باللہ۔اسلام نے مریضوںکی تیمارداری ، مرض الموت میں ان کو تلقین، موت ہوجائے تو احکام شرع کے مطابق ان کی تجہیز وتکفین ،نمازجنازہ اور جنازہ کے ساتھ قبرستان جانےاور مسلمانوں کے قبرستان میں ان کی تدفین سے متعلق مفصل احکام دئے ہیں ، اسلام نے احترام انسانیت کا جو آفاقی پیغام دیا ہے وہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ،اسلام نے جہاں زندہ انسانوں کے احترام کا حکم دیا ہے وہیں میت کے احترام کی بھی ایسی تلقین کی ہے جیسے زندوں کے احترام کے بارے میں رہنمائی کی ہے ۔کورونا سے وفات پانے والوں کو غسل دینے ،تجہیز وتکفین ،نماز جنازہ وتدفین میں ان احتیاطات کو ضرورملحوظ رکھا جانا چاہئے جن کی ماہر اطباء نے رہبری کی ہے ، ان سارے امور کی انجام دہی میں مذکورہ حفاظتی لباس وحفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اس فریضہ کو انجام دیا جاسکتا ہے،مسلم سماج کا فریضہ ہے کہ وہ میت کے آخری سفرکے اہتمام میں ان احکام کی حد درجہ رعایت رکھے ۔بصورت مجبوری احتیاطی اقدامات کو بروئے کار لاتے ہوئے میت کو تیمم بھی کرایا جاسکتا ہے ،کسی مریض کو اگر اطباء نے ضروری سمجھ کر طبی نقطہ نظرسے جراثیم کش ادویہ کا چھڑکائو کرکے حفاظتی لباس میں ملفوف کردیا ہے کہ اس کا کھولاجانا خطرہ سے خالی نہیں ہے تو اس چھڑکائو کے عمل کوغسل اور حفاظتی ملفوف کوکفن کےقائم مقام مان لیا جاسکتا ہے ، ایسی احتیاطی تدابیر دراصل انتہائی اضطراری حالت میں گوارا کی جاسکتی ہیں۔ نماز جنازہ تو ہر حال میں ادا کی جانی چاہئے ،اطباء کی ہدایت کے مطابقSocial Distancingیعنی میت اور نماز جنازہ ادا کرنے والوں کے بیچ دوری برقرار رکھی جائے ۔تدفین بھی پورے احترام کے ساتھ سنت کے مطابق انجام دی جانی چاہئے ،ہرگز ایسا نہ ہو کہ اسلامی احکام کی رو سے میت جس احترام کی مستحق ہے اس کو نظر انداز کردیا جائے ۔ اسلام نےاحترام میت کےجو حقوق متعین کئے ہیں ان کو ہرگز فراموش نہیں کیاجانا چاہئے چونکہ یہ ایک مسلم میت کا حق ہے اس کو اس کے حق سے ہر گز محروم نہیں کیا جاسکتا ، مسلم میت کے آخری سفر کے انتظامات میں کسی طرح کی کوتاہی اللہ سبحانہ کی ناراضگی کا باعث ہوسکتی ہے ،اسلام نے ایمان کی نسبت سے یقین کی ایسی نعمت نصیب فرمائی ہے جو انسان کو اللہ سبحانہ پر کامل توکل واعتماد کا درس دیتی ہے، موت وحیات کا پیدا کرنے والا اور زندگی و موت دینے والا وہی کائنات کا خالق ومالک ہے اس لئے احتیاطی تدابیر اپنی جگہ ان کو اسباب کے درجہ میں شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ضرور اختیار کرنا چاہئے لیکن احتیاطی تدابیر اس انتہا کونہ پہنچ جائیں کہ اس سے اسلامی فطری احکامات کی روح مجروح ہواس سے کہیںبڑھ کر اللہ سبحانہ وتعالی کی ناراضگی کامسلمانوں کوسامنا کرنا پڑے۔اللہ سبحانہ پرایمان وایقان اور توکل میں ازدیاد واضافہ کیلئے یہ دعاء ہر آن ورد زباں رہنی چاہئے ۔ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْأَلُکَ اِیْمَانًا یُّبَاشِرُ قَلْبِیْ وَیَقِیْنًا صَادِقًا حَتّٰی أَعْلَمَ أَنَّہٗ لَا یُصِیْبُنِیْ اِلَّا مَا کَتَبْتَ لِیْ وَرِضًا بِمَا قَسَمْتَ لِیْ۔( المعجم الاوسط للطبرانی ۶ ؍۱۱۷،رقم ۵۹۷۴) اے اللہ میں تجھ سے وہ ایمان مانگتاہوں جو میرےدل میں رچ بس جائے اور ایسا سچا ایقان کہ میں اس کا خوب یقین کرلوں کہ جو بات تو نے میری تقدیر میں لکھ دی ہے بس وہی مجھ کو پیش آسکتی ہے ،اور جو کچھ تو نے میرے لئے تقسیم کرکے مقدر کردیا ہے برضا اس کو تسلیم کرلوں ۔ ان شاء اللہ اسباب کے درجہ میں احتیاط کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالی پر کامل توکل واعتماد کے ساتھ اس دعاء کا اہتمام ایمان ویقین کی نورانیت میں مزید نکہارکا باعث بن سکتا ہے ۔