صفت ربوبیت :حکومت اور عوام کیلئے اہم سبق
کورونا وائرس کی قیامت خیز تباہی سے پوری دنیا متاثر ہے اور سب احتیاطی تدابیرہی کو عافیت سمجھ رہے ہیںاور متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن جاری ہے ۔ لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلہ دیگر احتیاطی تدابیر سے اس وباء کی روک تھام پر اثر تو ہورہا ہے لیکن اس کا منفی اثر ان لوگوں پر سخت ہورہا ہے جو ضرورتمند ہیں اور یومیہ اپنی کدوکاوش سے نانِ شبینہ کا انتظام کرپاتے ہیں وہ اُن کی اولاد اور افراد خاندان جوکہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہیں سخت ترین مشکلات سے دوچار ہیں۔
ان حالات میں حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور عامۃ الناس بطور خاص معاشی اعتبار سے کمزور افراد کو سہولت بہم پہنچانے کیلئے مؤثر کارروائی کرے اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔ علاوہ ازیں یہ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسی سنگین صورتحال میں مارکٹ میں منصفانہ قیمتیں رائج ہونی چاہئے تاکہ ظلم و استحصال کا سدباب ہو یعنی قیمتیں ایسی ہوں جس میں خریدار اور تاجر دونوں میں سے کسی پر بھی ظلم نہ ہو۔
واضح رہے کہ اﷲ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک اہم صفت ’’رب العلمین‘‘ ہے ۔ ’’رب‘‘ سے مراد پرورش کرنا ، پالنا ، نگہداشت کرنا ، نشونما دینا اور سارے وظائف اس طرح سے انجام دینا کہ ایک چیز اپنے چھوٹے سے چھوٹے مقام سے بڑھ کر اپنی تکمیل کو پہنچ جائے ۔
ساری کائنات میں اﷲ تعالیٰ کا یہ نظام ربوبیت جاری و ساری ہے۔ ربوبیت کی یہ صفت قرآن مجید میں کئی جگہ بتائی گئی ہے ۔ چونکہ ربوبیت اﷲ تعالیٰ کی اہم صفات میں سے ایک ہے ، لہذا اﷲتعالیٰ کے نائب کی حیثیت سے انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے اندر اس صفت کی پرورش کرے ۔ جس طرح اﷲ تعالیٰ ساری کائنات کو پال رہا ہے ، اسی طرح انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے گردوپیش اور زیرکفالت لوگوں کی ضروریات پورا کرنے کے لئے مستعد رہے ۔
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی شان ربوبیت نرالی ہے ، کائنات میں رزق رسانی کا یہ انتظام بغیر کسی احتیاج ، مطالبے ، یا چیخ و پکار کے ہمیشہ ہوتا ہے، اس میں حکومتوں کے لئے اہم سبق ہے ۔ جس طرح اﷲ تعالیٰ کی صفت ربوبیت ہے کہ ہ بن مانگے عطا کرتا ہے اسی طرح حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے مطالبے اور چیخ و پکار سے قبل ان کی ضرورت کو پہنچے اور ایسی منصوبہ بندی کرے کہ بیشتر اس سے کہ لوگ احتجاج کے لئے نکلیں وہ انکی ضرورتوں کی پیش بینی کرکے ان کی مدد کو پہنچ جائیں ۔ اس کا اندازہ ایک روایت سے ہوتا ہے ۔ ابوعثمان راوی ہیں : عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہمیں آذر بیجان میں لکھا کہ اے عقبہ بن فرقد! یہ دولت نہ تمہارے والد کی کمائی ہے اور نہ تمہاری ماں کی ہے ۔ لہذا مسلمانوں کو اسی طرح ان کے گھروں میں رزق پہنچاؤ جس طرح تم اپنے اہل خانہ کو پہنچاتے ہو۔
اﷲ تعالیٰ کی صفت ربوبیت یہ ہے کہ وہ پیدا کرتا ہے پھر ایک چھوٹے سے ذرے کو بڑھاتا چڑھاتا ہے ، تکمیل کے آخری مراحل پر لے آتا ہے ، یہ عمل آہستہ آہستہ انجام پاتا ہے ۔ اگرچہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اسے ایک لمحے میں کردینے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ اس میں حکومت کے لئے اشارہ ہے کہ وہ اپنی معاشی منصوبہ بندی میں ارتقائی لائحہ عمل اختیار کرے کیونکہ یہ سنت الٰہی کے زیادہ قریب ہے ۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کے لئے ’’رب الناس‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ (سورۃ الناس ۱۱۴؍۱) حالانکہ یہ ’’رب العلمین‘‘ میں شامل ہے ۔ اس کا علحدہ ذکر کرنے سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمام انسانوں کو بلاامتیاز مذہب و ملت ، رنگ و نسل ، وطن و قوم پال رہا ہے یعنی معاشی حالات میں اﷲ تعالیٰ نے ان میں سے کسی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں رکھا ۔ حکومتوں کے لئے اس میں قرینہ ہے کہ وہ اپنے حدود میں بسنے والے تمام انسانوں کو ، خواہ وہ کسی بھی ملت سے تعلق رکھتے ہوں ، معاشی حقوق میں برابر کے مواقع دیں ۔ معاشی حقوق میں مذہب و ملت کی تفریق ظلم و زیادتی ہے ۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کے لئے ’’رحمن‘‘ ، ’’رحیم‘‘ ، ’’غفور‘‘، ’’کریم‘‘، ’’ودود‘‘ وغیرہ صفات آئے ہیں ۔ صفاتِ جلالی کا بھی ذکر موجود ہے تاہم صفات رحمت و محبت اس کی تمام صفات پر غالب ہیں۔
اس میں حکمراں کے لئے ایک واضح اشارہ ہے کہ وہ اپنے تمام معاملات میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمدردی ، تعاون ، شفقت ، فیاضی ، عفو ، درگزر اور تحمل جیسی صفات پر عمل پیرا ہونا چاہئے ۔ چنانچہ اسلامی معاشی حکمت کے دو اہم مقاصد عدل اور احسان ہے ۔ باہمی معاملات میں حقوق کی ادائیگی یعنی عدل کی تکمیل کے ساتھ احسان کارویہ اختیار کرنا شریعت کے منشاء کے عین مطابق ہے ۔ بناء بریں وہ ملازمین جو ہماری دوکان ، آفس اور گھر میں ہماری مدد کرتے ہیں اُن کی اُجرت کی ادائیگی کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا معاملہ قائم رکھنا ہمارا فریضہ ہے ۔
چین سے کورونا وائرس کی تباہی کا آغاز ہوا لیکن دو تین ماہ کے قلیل عرصے میں اس نے اس وباء پر بڑی حد تک قابو پالیا ، اس کی بنیادی وجہہ یہ تھی کہ اس نے اپنی رعایا کو کھانا اور ضروری اشیاء فراہم کئے اور دو ماہ تک مسلسل لاک ڈاؤن رکھا اور بہت جلد وہ قابو پاسکے ۔ یہ حکمت عملی کارگر اور مؤثر ثابت ہوسکتی ہے ۔ حکومت کے فرائض کے علاوہ ایک مسلمان کو صفت ربوبیت ، صفت رحمت پر غور و خوض کرنا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے اہل اسلام کو انفاق یعنی خرچ کرنے کا حکم فرمایا اس کا عین منشا ضرورتمند کی ضرورت کی تکمیل کے علاوہ رضائے الٰہی مقصود ہے اس لئے مال و دولت کی غرباء میں تقسیم میں ریاء کاری اور دکھاوا نہ ہو، اصل مقصود نیکی ہو بناء ریاکاری کے ورنہ اﷲ کے پاس مقبول نہیں ہوگا ۔