تصویر تیری دیکھ کے گھبرا گئی نظر
چہرہ تو ہو بہ ہو وہ کسی بے وفا کا تھا
کورونا کی دوسری لہر
ملک میں تمام تر اقدامات کے باوجود کورونا کی دوسری لہر ایسا لگتا ہے کہ شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ ملک بھر میں کورونا کے جو کیس یومیہ 10 ہزار تک رہ گئے تھے اب ان میں دوبارہ شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے اور یہ تعداد بڑھتے ہوئے 40 ہزار یومیہ تک پہونچنے لگی ہے ۔ یہ اندیشے سر ابھارنے لگے ہیں کہ ملک بھر میں کورونا کی دوسری لہر مزید شدت کے ساتھ پھیل سکتی ہے اور یہ زیادہ خطرناک بھی ہوسکتی ہے ۔ گذشتہ سال جب کورونا نے سر ابھارا تھا یہ کہا جا رہا تھا کہ کورونا کی وباء سرماء کے موسم میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے تاہم یہ بات بالکل غلط ثابت ہوئی اور صورتحال اس کے بالکل برعکس ہوگئی ہے ۔ جب موسم سرما عروج پر تھا ملک بھر میں کورونا کے کیسوں میں کمی درج کی جا رہی تھی ۔ اب جبکہ گرما کی شدت میں بتدریج اضافہ ہونے لگا ہے کورونا کیسوں میں بھی تیزی آنے لگی ہے ۔ حکومت کی جانب سے کورونا پر قابو اپنے کے مختلف اقدامات کا اعلان کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود کیسوں کی تعداد میں کسی طرح کی گراوٹ نہیں آ رہی ہے بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔ خاص طور پر مہاراشٹرا کی صورتحال انتہائی سنگین ہوتی جا رہی ہے ۔ وہاں ایک دن میں 25 ہزار کیس رپورٹ ہورہے ہیں اور کئی شہروں میں عملا تحدیدات عائد کردی گئی ہیں۔ رات کا کرفیو نافذ کیا جا رہا ہے ۔ بعض شہروں میں مکمل اور بعض میں جزوی لاک ڈاون کیا جا رہا ہے ۔ دوسری پابندیاں بھی عائد کی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود کورونا کی شدت میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے ۔ حالانکہ ملک بھر میں چار کروڑ افراد کو کورونا ویکسین دینے کا بھی دعوی کیا جا رہا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ویکسین لینے سے بڑی حد تک کورونا سے بچاو ممکن ہے لیکن اس کا بھی کورونا کیسوں میں اضافہ پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے ۔ عوام کا جہاں تک سوال ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی بے فکر ہوگئے ہیں اور انہیں کورونا کے خطرہ کی کوئی پرواہ نہیں رہ گئی ہے ۔ عوام کی جانب سے لاپرواہی کے نتیجہ میں بھی کورونا کی شدت میں دوبارہ اضافہ ہونے لگا ہے ۔ ممکنہ حد تک احتیاط جو برتا جا رہا تھا اس کو ملک بھر میں عوام نے بالکل ہی فراموش کردیا ہے ۔
مرکزی حکومت ہو یا پھر ملک کی تمام ریاستوں کی حکومتیں ہوں سبھی نے اپنے اپنے طور پر کورونا سے موثر انداز میں نمٹنے کے دعوے کئے ہیں۔ کئی اقدامات کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں اس کے باوجود دوسری لہر کے اندیشوں نے سر ابھارنا شروع کردیا ہے اور کیسوں کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ درج ہونے لگا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتیں اس تعلق سے سنجیدگی سے غور وخوض کا آغاز کریں اور ایسی حکمت عملی بنائیں جس کے نتیجہ میں اس خطرناک اور مہلک وباء کو پھیلنے سے روکا جاسکے ۔ حکومتوں کو اپنے اقدامات پر نظرثانی سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ انہیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اب تک کئے گئے اقدامات میں کہاں جھول رہ گیا تھا یا پھر مزید کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ صحت عامہ کا مسئلہ ہے ۔ لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہونے لگے ہیں۔ ہزاروں افراد اب تک اس وباء کی وجہ سے جان گنوا بیٹھے ہیں۔ بچے ‘ بوڑھے ‘ جوان اور خواتین سبھی اس سے متاثر ہو رہی ہیں۔ اس وباء کو ایک سال پورا ہورہا ہے اور درمیان میں قدرے راحت کے بعد اس نے دوبارہ سر ابھارنا شروع کردیا ہے ۔ گذشتہ ایک سال کے تجربہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے نمٹنے کی حکمت علی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ جو کچھ ممکنہ اقدامات ہوتے ہیں ان کو اختیار کرتے ہوئے عوام کوا س وباء سے بچایا جاسکے ۔ اموات کی تعداد کو کم سے کم رکھا جاسکے اور متاثرین کی زیادہ سے زیادہ تعداد صحتیاب ہوسکے ۔
حکومت کو نہ صرف معائنوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہئے بلکہ عوام میں اس کے تدارک کیلئے بھی زیادہ موثر انداز میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے انہیں بھی احتیاط کیلئے تیار نہیں کیا جاتا اس وقت تک صورتحال پر پوری طرح قابو کرنا آسان نہیں رہے گا ۔ معاشی سرگرمیوں کے نام پر عوام کی صحت سے سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے اور محض اندیشوں یا خوف کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں کو بھی روکا نہیں جانا چاہئے ۔ تمام تر صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے وسیع تر حکمت عملی کے ساتھ اس وائرس سے نمٹنے کیلئے از سر نو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ ریاستیں ہوں یا مرکزی حکومت ہو سبھی کو مشترکہ غور و فکر کے ذریعہ اپنی حکمت عملی بناکر فوری سرگرم ہونے کی ضرورت ہے ۔
