محمد نصیر الدین
’’کورونا‘‘ نے ساری دنیا میں دہشت پھیلا رکھی ہے اور نہ جانے کب تک کورونا کے قہر اور خوف میں انسانیت مبتلا رہے گی اور اس کے چلتے ’’لاک ڈاون‘‘ کا سلسلہ دراز ہوتے جائے گا۔ حکومت بجا طور پر اس خوف ناک مہلک بیماری سے عوام کو بچانے کے لئے لاک ڈاون نافذ کررہی ہے لیکن افسوس کہ عوام ابھی بھی ذمہ داری کے احساس سے محروم ہیں۔ محکمۂ صحت اور حکومت کی کوششوں اور کاوشوں کو کامیاب بنانے کے لئے ہر فرد کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ لیکن عوام کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی بنا پر کورونا کے مریضوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اس خدشہ اور خطرہ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ کہیں یہ موذی وائرس فضاء میں نہ داخل ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو ہزاروں افراد کے متاثر ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے! چاہے مرض میں اضافہ ہو یا پھر اس کی ہلاکت خیزی میں دونوں صورتوں میں سماج اور معاشرہ کئی ایک مسائل میں گرفتار ہوسکتا ہے اور اس کے مضر اثرات کا معاشرہ کا ایک بڑا طبقہ شکار ہوسکتا ہے۔ جسے بچانا نہ ہی حکومت اور نہ ہی سماج کے لئے ممکن ہوپائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اس تلخ حقیقت کو سمجھیں اور ایک ذمہ دار اور باشعور شہری ہونے کا ثبوت دیں۔ کرونا سے بچاؤ کے لئے جو ہدایات حکومت کی جانب سے جاری کی جارہی ہیں اس کی پابندی ہر شہری کا اولین فرض ہے اور اس سلسلہ میں جو بھی اور جیسی بھی بے احتیاطی یا لاپرواہی نظر آرہی ہے اس کو دور کرنے کے لئے ایک طرف خاندان کے بڑے بزرگوں کو اہم رول ادا کرنا چاہئے۔ تو دوسری طرف محلہ اور آبادی کے سربر آوردہ اصحاب معززین سماجی مذہبی فلاحی اور سیاسی جماعتوں کے ذمہ داروں کو آگے بڑھ کر عوام کو کورونا کے سلسلہ میں تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر اس طرف سنجیدگی سے کوشش نہ کی گئی تو قوی امکان ہے کہ یہ کورونا کا وائرس کس کو کب اور کیسے اپنا شکار بنالے بتایا نہیں جاسکتا۔ مزیدیہ کہ یہ موذی وائرس احتیاط کرنے والوں کو بھی اپنا شکار بنانے سے گریز نہیں کرے گا۔
کورونا وائرس کے چلتے لاک ڈاون نے ملک و قوم کی معیشت کو بدحال کردیا ہے۔ مرکزی و ریاستی حکومتیں تباہ حال معیشت کے چلتے سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہیں۔ ملازمین حتی کہ وظیفہ یابوں کی یافت میں بھی کٹوتی کی جارہی ہے۔ عوامی نمائندوں کی تنخواہوں اور مراعات میں کٹوتی کا اعلان ہوچکا ہے۔ ترقیاتی اور فلاحی اسکیمات تھم گئی ہیں۔ حالات کی سنگینی کا سب سے زیادہ افسوسناک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس بحران نے ملک میں جاری مختلف فلاحی سرگرمیوں پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ ملت کی بہت ساری تنظیمیں اور ادارے مسلمانوں میں تعلیمی وطبی امداد، فراہمی روزگار کے کام اور یتیموں و یسیروں اور بیواوں کو وظائف کی فراہمی کا کام انجام دیتی ہیں۔ اسی طرح بہت سارے ادارے معاشرہ میں اصلاح اور دعوت کا عظیم کام بھی انجام دے رہی ہیں۔ لاک ڈاون کے چلتے ہو رہے معاشی بحران نے ان تمام سرگرمیوں کی رفتار پر بند لگادیا ہے۔ اس مسئلہ پر ملت کے سربرآوردہ اصحاب اور عمائدین کو غور و فکر کے بعد کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے تاکہ مذکورہ تمام سرگرمیوں پر موجودہ حالات کا کوئی اثر نہ پڑے اور ملک میں چلائے جانے والے ہزاروں دینی مدارس بدستور کام کرتے رہیں اور کوئی ایک دینی ادارہ بھی مسدود ہونے نہ پائے۔
کورونا لاک ڈاون کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ سارے کاروبار، تجارت، لین دین حمل و نقل اور ملازمتیں بند ہوچکے ہیں جس کے چلتے چھوٹے بیوپاری، یومیہ مزدور معمولی ملازمت پیشہ افراد، خانگی ملازمین، ہنر مند افراد، فیکٹریز کے ملازمین، فٹ پاتھوں پر کاروبار کرنے والے اور حمل ونقل کی صنعت سے وابستہ افراد جن کے ذرائع آمدنی مسدود ہوچکے ہیں ناقابل بیان مصائب میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ گھر میں رہی سہی پونجی ختم ہو جانے سے وہ کسمپرسی اور کرب والم کا شکار ہوچکے ہیں۔ نان و شبینہ تک کی محتاجی انہیں گھیرے میں لے چکی ہے۔ اپنے اور بچوں کی مختلف بیماریوں کے اخراجات کا سنگین مسئلہ انہیں درپیش ہے۔ مکانات اور دوکانات کے کرایوں کی ادائیگی سنگین رخ احتیار کرچکی ہے۔ اسی طرح دیگر ضروری و ہنگامی خرچ کو لیکر اوسط اور اس سے کم درجہ کے لوگ پریشانی اور مصیبت میں گھرچکے ہیں۔ الحمد للہ ثمہ الحمد للہ ہمیشہ کی طرح ان سخت حالات میں بھی ملت کے صاحب شروت اور اہل مال ضرورتمندوں، محتاجوں اور غریبوں کی مدد و تعاون کے لئے میدان میں آچکے ہیں اور ہر ممکنہ طریقہ سے امداد لیکر غریبوں اور ضرورتمندوں کے درمیان پہنچ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین اجر و ثواب سے نوازے۔ آمین۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو ضرورتمندوں اور محتاجوں کی مدد کے لئے آگے بڑھتے ہیں فوزو فلاح اور بہترین اجر کی خوشخبری دی ہے وہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’تم زمین والوں پررحم کرو اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے گا‘‘ مزید یہ کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صاحب ثروت اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تمہارے مال میں ’’سائل و محروم، کا بھی حق ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کورونا لاک ڈاون کی مدت مزید بڑھادی جائے۔ یعنی زندگی کی گاڑی مزید کچھ عرصہ کے لئے رک جائے گی۔ لہذا حالات کا تقاضہ ہے کہ ملت کا ہر فرد دیگر مسلمان بھائیوں کی امداد اور تعاون کے لئے کمربستہ ہو جائے۔ ہر وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے معاشی اطمینان سے نوازا ہے۔ اس بات کی کوشش کرے کہ وہ ایک پریشان حال خاندان کی کفالت کا ذمہ لے لے اور اپنے طور پر ان کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرے۔ ضروری نہیں کہ یہ کام کسی ادارے کے نظم کے تحت ہو ہر فرد اپنے طور پر کسی خاندان کو منتخب کرلے اور اس کے مصائب کو دور کرنے کی سعی کرے، اس انداز میں بھی کئی ایک خاندانوں کی کفالت ہوسکتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ مخفی عبادات زیادہ اجر کا ذریعہ ہوتی ہیں۔
اس موقع پر دوسری اہم تدبیر یہ ہونی چاہئے کہ خدمت خلق میں مصروف مختلف ادارے، تنظیمیں اور مخیر احباب کسی ایک علاقہ یا آبادی کو منتخب کریں اور سروے کے ذریعہ پتہ لگائیں کہ وہاں کس نوعیت کی امداد و تعاون کی ضرورت ہے۔ پھر اس کے مطابق وہ عملی اقدامات کریں۔ مشاہدہ میں آرہا ہے کہ کسی بستی میں کئی ایک ادارے امدادی کام انجام دے رہے ہیں اور کئی ایک بستیوں میں کوئی تنظیم بھی پہنچ نہیں پائی ہے۔ اس لئے موجودہ حالات میں امدادی سرگرمیاں انجام دینے والے اداروں اور احباب سے گذارش ہے کہ وہ باہمی مشاورت کے ذریعہ حسب سہولت اور وسائل آبادیوں کا انتخاب کریں۔ منظم انداز میں وہاں امدادی کام کریں تاکہ کوئی ایک محروم اور ضرورتمند بھی امداد و تعاون سے محروم نہ رہ جائے۔ اس موقع پر تیسری اہم بات جس پر توجہ کی ضرورت ہے وہ یہ کہ شہر میں الحمد للہ وسیع پیمانے پر کام چل رہا ہے، لیکن اطراف بلدہ اور اضلاع کے بعض علاقوں میں کسمپرسی کا شکار کئی ایک خاندان امداد و تعاون کے منتظر ہیں لیکن ان تک پہنچنے والا کوئی نہیں ہے ۔ لہذا خدمت خلق میں لگے افراد و تنظیموں سے اپیل ہے کہ وہ ان نظرانداز علاقوں اور دیہاتوں پر بھی توجہ دیں۔ چوتھا اہم کام جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ریاست میں موجود مساجد، مدارس اور دینی اداروں کا نظم و انصرام اور وہاں برسر کار اصحاب کی کیفیت ہے۔ فی الحال اعانتوں اور چندہ کا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔ ایسے میں مذکورہ اداروں سے متعلق افراد خوداری اور حیا کی بنا پر اپنی ضروریات کا بھی کسی سے اظہار نہیں کرپاتے۔ اس سلسلہ میں مساجد اور مدارس کے منتظمین کا فریضہ ہیکہ وہ وسیع القلبی اور اظہار ہمدردی کا رویہ اپناتے ہوئے ان اصحاب کے مشاہدہ جات اور تنخواہوں میں بلاکسی کٹوتی یا کمی کے ادا کردیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو انتہائی مقدس فریضہ انجام دے رہے ہیں اور ہر کس و ناکس سے وہ اپنی ضروریات کا ذکر بھی نہیں کر پاتے۔ موجودہ حالات میں ان کی خبر گیری اور امداد دوہرے اجر کا باعث بن جاتی ہے۔
پانچویں بات جس کی طرف اہل ثروت اور اہل مال کو توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ناپ تول کر محض زکواۃ کی ادائیگی پر اکتفا نہ کریں بلکہ اپنی تجوریوں کو فی سبیل اللہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی اور محبت میں کھول دیں۔
یاد رہے کہ یہ وقت اللہ کے ساتھ تجارت کا ہے اور اللہ تعالیٰ بندوں کے ساتھ ایسی تجارت کرتا ہے جس میں وہ اپنے بندوں کو 70 گنا سے زیادہ منافع دیتا ہے اور اس سے زیادہ بھی دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا اور پکا ہوتا ہے یہ بات ہر مسلمان کو ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ضرورت مندوں، محتاجوں، پریشان حال اور مفلوک الحال لوگوں پر دولت خرچ کرنے سے دولت کم نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کئی گنا بڑھاکر اسے لوٹا دیتا ہے۔ خرچ کردہ دولت دنیا میں باعث برکت اور آخرت میں نجات کا بھی باعث ہوتی ہے۔
آخری بات جس کی طرف سب کو توجہ دینا چاہئے کہ موجودہ سنگین حالات باہمی اختلافات، طنز و تشیغ، نیتوں پر شک اور ایک دوسرے پر الزام تراشی یا ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہر فرد ہر ادارہ ہر جماعت کی کوششیں اور کاوشیں قابل مبارکباد ہیں اور سب ہی اجر کے مستحق ہیں۔ کارخیر میں شریک ہر فرد اور ادارہ کے پیش نظر ایک ہی نکتہ ہونا چاہئے کہ کوئی بھی مستحق، ضرورتمند اور مجبور فرد یا خاندان امداد سے محروم نہ رہے۔ کوئی بندۂ خدا بھوکا پیاسا نہ رہنے پائے۔ کوئی شیر خوار دودھ کے لئے بے چین نہ ہو جائے۔ کوئی بیوہ، یتیم، و یسیر یا ضعیف توجہ سے محروم نہ رہ جائے۔ کسی شخص کی آنکھ سے محرومی و بے بسی کے آنسو نہ نکلنے پائیں اور کسی نادار یا پریشان حال کی آہ عرش تک نہ جانے پائے۔ امت مسلمہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جسم سے تعبیر کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسے نازک حالات میں امت مسلمہ ’’ایک جسم‘‘ ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے یا نہیں !! اللہ تعالیٰ توفیق خیر عطا فرمائے۔ آمین ؎
ہماری راہ کے پتھر خدا اٹھاتا ہے
کسی کی راہ کے پتھر جو ہم اٹھاتے ہیں