کورونا کی نئی قسم ’’او میکرون ‘‘ کیا ایک اور حیاتیاتی ہتھیار ہے ؟

,

   

سیاست فیچر 

دنیا پھر سے کورونا وائرس کو لے کر خوف میں مبتلا ہوگئی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت اور ماہرین وبائیات و وائرسیس نے اس بات کی توثیق کی ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم ڈاٹ ون ڈاٹ ون فائیو ٹو نائن، الفا اور ڈیلٹا جیسے کورونا وائرس سے بھی خطرناک ہے اور اسے ڈبلیو ایچ او نے او میکرون کا نام دیا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وائرس کی یہ قسم سے سائنسی برادری حیران ہے کیونکہ یہ ایک ایسی قسم ہے جس میں ڈھیر ساری تبدیلیاں آچکی ہیں۔ حال ہی میں پروفیسر ٹولیو ڈی اولیویرا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے او میکرون کے بارے میں تفصیلات پیش کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ او میکرون میں بحیثیت مجموعی 50 جینیاتی تبدیلیاں دیکھی گئیں اور اس کی خاص بات بلکہ انسانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی یہ ہے کہ کورونا وائرس میں ایک مخصوص پروٹین پایا جاتا ہے اور کورونا پر قابو پانے جتنے بھی ویکسین تیار کی گئیں وہ اس پروٹین کو نشانہ بناتی ہیں لیکن او میکرون میں پائی جانے والی اسپائیک پروٹین میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ 30 جینیاتی تبدیلیاں موجود ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ او میکرون جیسی وائرس کی قسم کا سائنس دانوں نے جب معائنہ کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وائرس کا وہ حصہ سب سے پہلے انسانی جسم پر اثرانداز ہوتا ہے، اس کی سطح پر بھی 10 جینیاتی تبدیلیاں پائی گئیں۔ اگر اس واقعہ کا کورونا وائرس کی ایک اور قسم ڈیلٹا سے تقابل کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ڈیلٹا وائرس میں اس طرح کی صرف دو جینیاتی تبدیلیاں پائی گئیں۔ جینیاتی تبدیلیوں کا وقوع ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ اگر او میکرون وائرس کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ چین کے شہر ووہان میں جو وائرس کورونا کا سبب بنا تھا اب او میکرون اس وائرس سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ اکثر یہی کہا جارہا ہے کہ دنیا بھر میں جو ٹیکے کورونا وائرس پر قابو پانے کیلئے تیار کئے گئے وہ شاید او میکرون وائرس پر اثر انداز نہ ہو۔ جہاں تک کورونا وائرس کی تباہی و بربادی کا سوال ہے ، دنیا بھر میں اس وائرس سے 26.1 کروڑ لوگ متاثر ہوئے جبکہ مرنے والوں کی تعداد 52 لاکھ سے زائد رہی۔ دنیا کا سوپر پاور سمجھا جانے والا ملک امریکہ بھی اس وائرس پر قابو پانے میں ناکام رہا اور وہاں سب سے زیادہ 4.81 کروڑ لوگ کورونا سے متاثر ہوئے اور 7.77 لاکھ لوگ موت کی آغوش میں پہنچ گئے۔ دوسرے نمبر پر ہندوستان ہے جہاں کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران 3.46 کروڑ لوگ متاثر اور 4.69 لاکھ لوگ فوت ہوئے، لیکن یہ تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تیار کی گئی رپورٹس کا نتیجہ ہے جبکہ غیرسرکاری اعداد و شمار میں اس سے 10 گنا افراد متاثر اور فوت ہوئے ہیں۔ تیسرے نمبر پر برازیل، چوتھے نمبر برطانیہ اور پانچویں نمبر روس رہا۔ 10 سرفہرست ممالک میں ترکی، فرانس، ایران، جرمنی، ارجنٹینا شامل ہیں۔ کورونا وائرس کی وباء پھوٹنے کے بعد مختلف حلقوں سے سازشی نظریات بھی سامنے آئے اور یہ کہا گیا کہ یہ آفات سماوی کا ایک حصہ نہیں بلکہ انسان کا ہی تیار کردہ وائرس ہے اور اس کے پیچھے اَن دیکھی عالمی سامراجی طاقتیں کارفرما ہیں جو دنیا بھر کی بڑھتی آبادی کو اپنی مرضی کے مطابق محدود کرکے ایک نئے عالمی نظام پر عمل کو یقینی بنانے کے شیطانی منصوبے رکھتی ہیں۔ حکومتوں اور حکمرانوں کو بے بس و مجبور کرکے انہیں اپنے اشاروں پر نچایا جائے۔ اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق ملکوں کی پالیسیوں، ایجنڈوں و پروگرامس کو قطعیت دی جائے۔ ساتھ ہی مختلف امراض کی ادویات کی تیاری، اس کی فروخت اور ادویات کی صنعت کو پوری طرح اپنے قابو میں کرلیا جائے۔ یہ بات موجودہ حالات کا بڑی غور و فکر سے جائزہ لینے کے بعد سمجھ میں بھی آتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا نے زندگی کے ہر شعبے میں کافی ترقی کی ہے، لیکن کینسر کا علاج آج تک دریافت کیوں نہیں ہوا یہ ایک راز بنا ہوا ہے۔ HIV ایڈز جیسے امراض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے بھی ادویات منظر عام پر نہیں آئیں جبکہ مختلف ملکوں میں بڑے پیمانے پر ریسرچ کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی سطح پر جو لابی کام کررہی ہے، شاید وہ نہیں چاہتی کہ ان بیماریوں کو ختم کرنی والی ادویات تیار ہو۔ دوسری طرف فحاشی کو اعزاز بنا دیا گیا ہے۔ بہرحال اس طرح کی بے شمار ایسی باتیں ہیں جو اس بات کا اشارہ کرتی ہیں کہ کورونا وائرس یقینا ایک وائرس ہے جو لوگوں کو متاثر بھی کررہا ہے اور لوگ اس کی زد میں آکر زندگیوں سے محروم بھی ہورہے ہیں، لیکن یہ بھی اشارے مل رہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی عالمی گروپ اس طرح کے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعہ اپنی بالادستی قائم کرنے میں مصروف ہے اور وہ گروپ عالمی اداروں کو بھی من چاہے انداز میں استعمال کررہا ہے۔ ذرا غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ گروپ عالمی سطح پر آبی ذخائر کو بھی نشانہ بنانے لگا ہے۔ پانی کی فروخت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آئندہ جتنے بھی تنازعات پیدا ہوں گے یا جنگیں لڑی جائیں گی ، ان میں زیادہ تر پانی کیلئے ہی لڑی جائیں گی۔ اب تک حال یہ ہوگیا ہے کہ یہ گروپ قدرتی وسائل کو بھی تقریباً اپنے قبضہ میں کرچکا ہے اور آئندہ آپ یہ دیکھیں گے کہ تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک کو بھی ان کی اہمیت ختم کرتے ہوئے بے بس و مجبور کردیا جائے گا اور یہ طاقتیں پٹرول، پانی یہاں تک کہ ہوا کو بھی بیچنے لگیں گی۔ اگر دیکھا جائے تو کورونا وائرس ہو یا پھر اس کی نئی شکل او میکرون یہ بظاہر ایک وائرس ہے لیکن جس انداز میں عالمی سطح پر جغرافیائی و سیاسی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں اور معاشی نظام میں اتھل پتھل پائی جاتی ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ وائرس دراصل نیو ورلڈ آرڈر لانے کی تیاریاں کررہی نادیدہ یا اَن دیکھی طاقتوں کی جانب سے استعمال کیا جارہا ایک خطرناک حیاتیاتی ہتھیار (Biological Weapon) ہے جس کا مقابلہ احتیاط کے ذریعہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ آپ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وائرس کے خطرے کو دیکھتے ہوئے مختلف ملکوں میں سفری پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، ہندوستان اور بے شمار ملکوں نے کورونا وائرس کی نئی قسم او میکرون سے لوگوں کے متاثر ہونے کی اطلاعات کے ساتھ ہی سفری پابندیاں عائد کردیں۔ اس طرح کے ملکوں میں جاپان، انڈونیشیا بھی شامل ہیں۔ یہ کہا گیا کہ او میکرون جنوبی آفریقہ، بوتسوانا ، آسٹریلیا، بیلجیم ، برطانیہ، جرمنی ہانگ کانگ ، اسرائیل، اٹلی، نیدرلینڈز، فرانس اور کینیڈا میں کئی لوگوں کو متاثر کرچکا ہے۔ ماہرین بھی اب کہنے لگے ہیں کہ کورونا وائرس کے موجودہ ٹیکے او میکرون سے محدود تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی او میکرون کو لے کر چوکسی اختیار کرلی گئی ہے، کیونکہ ہندوستان کورونا وباء کے دوران طیران گاہوں پر بیرونی پروازوں کی آمد کے بارے میں غفلت کا خمیازہ بھگت چکا ہے اور اس نے متاثرہ ملکوں سے آنے والے متاثرین کیلئے کئی شرائط عائد کئے ہیں۔ جن ملکوں میں لوگ او میکرون سے متاثر ہوئے، ان ملکوں نے اپنی سرحدیں بند کرنا شروع کردی ہیں۔ جاپان نے سب سے پہلے بیرونی شہریوں کیلئے اپنی سرحدیں بند کردی ہیں۔ جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ اسرائیل نے بھی اسی طرح کے قدم اٹھائے ہیں حالانکہ اکثر انسانیت دشمن سازشوں کے تار اسرائیل ہی سے ملتے رہے ہیں۔ جہاں تک کورونا اور عالمی سازشوں کا سوال ہے، بعض ماہرین نے اسے حیاتیاتی ہتھیار قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر فرانسس بوائل جنہوں نے قانون انسداد حیاتیاتی ہتھیار کا مسودہ تیار کیا۔ انہوں نے ایک تفصیلی بیان جاری کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ 2019ء میں چین کے شہر ووہان سے پھیلا وائرس ایک حیاتیاتی ہتھیار ہے اور اس بارے میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پہلے سے ہی باخبر ہے۔ فرانسس بائل یونیورسٹی آف ایلینوائے کالج آف لا میں عالمی قانون کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے جس قانون کا مسودہ تیار کیا اسے قانون انسدادِ حیاتیاتی ہتھیار و دہشت گردی 1989ء کہا جاتا ہے۔ اس قانون کو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں منظور کیا گیا تھا ان کے اس سازشی نظریہ کی بے شمار سائنس دانوں نے تائید و حمایت کی ہے، بہرحال کورونا وائرس کی نئی قسم او میکرون کس قدر تباہی مچائے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ماہرین اس بات سے متفق ہیں کہ سال 2022ء بھی عالمی معیشت کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔