کولکتہ واقعہ پر سیاست کیوں ؟

   

چھاؤں میں جو ساتھ ہیں ان سے کہو
دھوپ کو بھی آزمانا چاہئے
کولکتہ کے دواخانہ میں ایک خاتون ڈاکٹر کی عصمت ریزی اور قتل کا واقعہ سارے ملک میں توجہ کا موضوع بن گیا ہے اور ملک کے تقریبا تمام شہروں میں اس واقعہ کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے ۔ واقعتا اس طرح کے واقعات انتہائی شرمناک اورمذموم ہوتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی جتنی شدت سے مذمت کی جائے اتنی کم ہے ۔ اس طرح کے واقعات میں ملوث ملزمین کو انتہائی سخت سزائیں دلائی جانی چاہئیں۔ انہیں سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے ۔ اس کیلئے قانون سازی کرتے ہوئے خواتین کی عصمت ریزی وقتل میں ملوث افراد کو سزائے موت دلانے کی گنجائش فراہم کی جانی چاہئے ۔ اس طرح کے واقعات سماج کیلئے ایک کلنک اور سیاہ داغ ہوتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کا کوئی جواز نہیںہوسکتا اور نہ ہی ایسے ملزمین کیلئے کسی طرح کا رحم کیا جاسکتا ہے ۔ تاہم ان واقعات کو سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا بھی درست نہیں ہوسکتا ۔ ایسے واقعات پر سیاست کرنا بھی اتنا ہی شرمناک ہے جتنا بجائے خود ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ ملک بھر میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور جہاں کوئی پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے اس کا موقف مختلف ہوتا ہے اور اگر وہ اپوزیشن میں ہو تو اس کا موقف جارحانہ ہوجاتا ہے ۔ یہ سیاسی مقصد براری ہے اور حقیقت میں سیاسی جماعتوں کو نہ متاثرین سے کوئی ہمدردی ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں ملزمین کو سزائیں دلانے سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے ۔ یہ سب کچھ اپنے سیاسی فائدہ کیلئے کرتے ہیں اور اس پر انہیں کوئی عار بھی محسوس نہیںہوتی ۔ کولکتہ واقعہ پر سارے ملک میں برہمی کی لہر پائی جاتی ہے ۔ عوام یا پھر میڈیکل برادری سے تعلق رکھنے والے افراد احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ ان کا حق ہے ۔ تاہم اس کو سیاسی مقاصد کیلئے بی جے پی کی جانب سے استعمال کرتے ہوئے بنگال حکومت کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔ کولکتہ واقعہ کے احتجاج کے دوران ہی اترپردیش میں ایک واقعہ پیش آیا جہاں ایک نرس کی عصمت ریزی کرنے کے بعد اس کا قتل کردیا گیا ۔یہ واقعہ بھی کولکتہ واقعہ کی طرح ہی سنگین ہے ۔
چونکہ اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے ایسے میں بی جے پی اس واقعہ پر کسی طرح کا احتجاج کرنے اور اس کو مسئلہ بنا کر عوام میں پیش کرنے کو وہ تیار نہیں ہے ۔ اسی طرح منی پور میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے ۔ وہاں ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں خواتین کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا لیکن وہاں بھی بی جے پی خود اپنی حکومت رکھتے ہوئے خاموش رہی ہے ۔ وہاں خواتین کو برہنہ کرتے ہوئے شرمسار کیا گیا ۔ اس کی تصاویر سارے ملک میں برہمی کا باعث بنیں اس وقت بی جے پی ایسے واقعات کا جواز پیش کرنے میں مصروف رہی تھی ۔ خود بی جے پی کے کئی قائدین کے خلاف عصمت ریزی کے مقدمات درج ہیں۔ ان میں رکن اسمبلی سے لے کر سابق مرکزی وزیر تک بھی شامل ہیں۔ متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کو سماج میں رسواء اور بدنام کیا گیا ۔ ان سے انصاف کی کوئی بات نہیں کی گئی ۔ ان خواتین اور لڑکیوں کو انصاف کی مانگ کرنے والوں کو بھی بخشا نہیں گیا ۔ ان کے رشتہ داروں کو تحویل میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تاہم کسی نے اس پر اف تک نہیں کی ۔ ملک کا جو زر خرید اور تلوے چاٹنے والا ڈوغلا میڈیا ہے اس کو بھی ابھی تک منی پور کے واقعات پر بات کرنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ یہ تک واضح نہیں کیا گیا کہ وہاں کتنی لڑکیوں اور خواتین کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا ۔ کولکتہ واقعہ پر مگر سبھی کو خواتین کی عزت و احترام کی فکر لاحق ہوگئی ہے ۔ یہ ان کے ڈوغلے پن کا واضح ثبوت ہے اور اس ڈوغلے پن پر ایسا کرنے والوں کو کوئی شرم بھی محسوس نہیں ہوتی ۔
کولکتہ میں جو واقعہ پیش آیا ہے انتہائی شرمناک ہے ۔ اس کے ملزمین کو سخت ترین سزائیں دی جانی چاہئیں۔ ریاستی حکومت بھی اس کیلئے ذمہ دار ہے ۔ اس پر متاثرہ ڈاکٹر کے افراد خاندان کو انصاف دلانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اگر وہ یہ ذمہ داری پوری نہ کر پائے تو وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہے ۔ تاہم دوسری جماعتوں کو اس پر سیاست کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ اس طرح کے گھناؤنے اور سنگین جرائم پر سیاست کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ خود سیاسی جماعتوں کو اس معاملے میں اپنے لئے ایک خط فاصل کھینچنے کی ضرورت ہے ۔ متاثرہ خاندان سے ہمدردی اور ان کی مدد کیلئے آگے آنا چاہئے اور سیاست سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ ایسی سیاست ہندوستانی روایات کے مغائر ہے ۔
اب منکی پاکس کا خطرہ
دنیا ابھی تک کورونا وائرس کے اثرات سے ابھی نہیں ہوسکی ہے اور اس کی وجہ سے زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئی تھی ۔ ساری دنیا تھم گئی تھی ۔ کورونا وائرس کا خطرہ ٹلا اور بتدریج حالات بہتری کی سمت رواں دواں ہوئے ۔ دنیا کی مصروفیات بحال ہوئی ہیں تاہم اب اچانک ہی منکی پاکس کا خطرہ منڈلانے لگا ہے ۔ عالمی تنظیم صحت کی جانب سے اس کو بھی صحت متعلق ایک عالمی ایمرجنسی قرار دیدیا گیا ہے ۔ اس پر بھی کئی گوشوں سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ ابھی تک حالانکہ دو چار ہی کیس سامنے آئے ہیںتاہم اس پر فوری حرکت میں آتے ہوئے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے موثر اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے ۔ عوام کی صحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام تر احتیاطی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ ہندوستان میں خاص طور پر اس پر احتیاطی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ کثیر آبادی والے ملک میں کورونا کی وجہ سے جو تباہی ہوئی تھی وہ ناقابل بیان تھی ۔ اب اگر منکی پاکس جیسی بیماری پھیلتی ہے تو یہ بھی عوام کیلئے باعث تشویش ہوگا ۔ حکومت نے حالانکہ احتیاطی اقدامات کا آغاز کردیا ہے تاہم اس معاملے میں مزید چوکسی اور احتیاط کی ضرورت ہے ۔عوام کیلئے رہنما خطوط بھی جاری ہونے چاہئیں اور عوام کو بھی اپنے طور پر ہرممکن احتیاط کرنے کی ضرورت ہے ۔