کون ہے جو (اپنا مال) اللہ تعالیٰ کو (بطور) قرضۂ حسنہ دے

   

کون ہے جو (اپنا مال) اللہ تعالیٰ کو (بطور) قرضۂ حسنہ دے اور اللہ تعالیٰ کئی گنا بڑھا دے اس کے مال کو اس کے لیے (اسکے علاوہ) اسے شاندار اجر بھی ملے گا ۔ (سورۃ الحدید : ۱۱)
اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب ایک نئے انداز سے دی جارہی ہے۔ فرمایا اللہ کی راہ میں جو مال تم خرچ کرو گے اس کی حیثیت قرض کی ہوگی ۔ جسے قرض دیا جاتا ہے اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اس کو واپس ادا کرے۔ اسی طرح راہ خدا میں جو تم خرچ کروگے وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ قرض ہوگا وہ اسے ضرور لوٹا دے گا۔ یہاں ایک نکتہ غور طلب ہے۔ اللہ تعالی کو مطلق قرض دینے کی ترغیب نہیں دلائی گئی بلکہ قرضۂ حسنہ دینے کی ترغیب دلائی گئی ہے اور قرضہ حسنہ تب ہوگا جب اس میں بقول علامہ آلوسی مندرجہ ذیل شرائط پائی جائیں: حلال مال ہو، اعلیٰ درجہ کی چیز ہو، خودکو بھی اس کی اشد ضرورت ہو، پوشیدہ طور پر دے، احسان نہ جتائے، اذیت نہ پہنچائے۔ مقصد رضائے الٰہی ہو، جتنا بھی خرچ کرے اسے تھوڑا خیال کرے۔جو تم اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اس کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک ملے گا بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کے علاوہ اجر عظیم بھی۔