کووڈ کے تباہ کن سال کے بعد مودی کا پہلا دورہ بنگلہ دیش ہی کیوں؟

   

سیشادری چاری
مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کا انعقاد 8 مرحلوں میں ہوگا۔ پہلے مرحلے کی رائے دہی سے ایک دن قبل وزیر اعظم نریندر مودی شیخ مجیب الرحمن کی پیدائش تقاریب میں شرکت کے لئے ڈھاکہ میں ہوں گے اور مودی وہاں اپنی تقریر کا آغاز چند بنگالی الفاظ سے کرسکتے ہیں تاکہ اس کا سیاسی فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ اس طرح وہ اپنے مخالفین کو حیرت زدہ کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں رکھیں گے۔ جہاں تک بنگلہ دیش کی آزادی کا سوال ہے 1971 میں اسے پاکستان سے آزادی ملی اور اس آزادی کا ہندوستان کے انتخابات سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن دہلی، ڈھاکہ اور کولکتہ کے درمیان جو قریبی تعلقات ہیں اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے بھی نریندر مودی جو کچھ بھی کرتے ہیں بڑی سوچ سمجھ کے ساتھ سیاسی فائدہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ حال ہی میں مائتری برج کا افتتاح عمل میں آیا۔ یہ پل دراصل شمال مشرقی علاقوں کو بنگلہ دیشی بندرگاہوں سے مربوط کرے گا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ہندوستان اور بنگلہ دیش نے کئی اہم ترین مسئلہ حل کئے ہیں۔ خاص طور پر سال 2014 کے بعد سے۔ مودی حکومت کے لئے ڈھاکہ اب ہندوستان کی پڑوسی دیکھو اسکیم کا مرکزی مقام حاصل کرچکا ہے۔
نریندر مودی نے 2015 میں بھی ڈھاکہ کا دورہ کیا تھا جس سے دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان ایک پائیدار اور قریبی دفاعی شراکت داری کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ وزیر اعظم کا وہ دورہ ایک اور وجہ سے بھی یادگار رہا۔ عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوئے صرف ایک سال میں چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی کو یہ سمجھانے کے لئے یا ترغیب دینے کے لئے کہ وہ اراضی سرحدی معاہدہ پر دستخط کے لئے ڈھاکہ جائیں مودی کی ایک سخت آزمائش تھی۔ جبکہ بی جے پی آسام یونٹ نے انکلیوز کے تبادلہ کی شدت سے مخالفت کی تھی اسی طرح جس طرح اس وقت کے کانگریسی چیف منسٹر آسام ترون گوگوئی نے مخالفت کی تھی۔ واضح رہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وباء کے پھیلنے اور پھر اس پر قابو پانے کے لئے ہندوستان میں لاک ڈاون نافذ کیا گیا۔ اس طرح لاک ڈاون کے بعد یہ مودی کا پہلا بیرونی دورہ ہے اور جہاں تک دورہ بنگلہ دیش کا سوال ہے 2015 میں وہ پہلا دورہ کرچکے ہیں اور یہ اب ان کا دوسرا دورہ ہوگا ایک ایسے وقت جبکہ چین نے ہندوستان کے انتہائی اہم ترین اس پڑوسی ملک کے ساتھ دفاعی تعلقات میں اضافہ کیا ہے مودی کا دورہ سفارتی لحاظ سے کافی اہمیت رکھتا ہے۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان خوش گوار تجارتی تعلقات بھی ہیں اور اس باہمی تجارت کا فائدہ دونوں ملکوں کو حاصل ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش جہاں ہندوستان کے ساتھ کاروبار کرنے میں کامیاب رہا وہیں اس کا چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (BRI) میں حصہ لینا بھی کافی اہم ہے۔ اس کے ذریعہ دونوں ملک معاشی تعاون و اشتراک کے ذریعہ تعلقات مستحکم کرنے کے خواہاں ہیں۔ جہاں تک بی آر آئی کا سوال ہے یہ ایک معاشی پروگرام سے بھی بڑھ کر پہل ہے۔ سابق وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے جو ایسٹ پالیسی اختیار کی تھی اس کا پھل موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کھا رہے ہیں اور ان کی حکومت میں مشرقی ممالک سے متعلق پالیسی میں پیشرفت ہوئی ہے۔ تاہم یہ اس وقت مزید ثمر آور ہوتی اگر یہ پراجکٹس اور منصوبے جو پالیسی کے تحت بنائے گئے وہ BIMSTEC سے مربوط کئے جاتے اور وقت پر ان کی عمل آوری کی جاتی۔ اگرچہ بنگلہ دیش نے اپنی معیشت 1982 میں دوسروں کے لئے کھولی اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان سے دس سال پہلے ہی اس نے اپنی معیشت کو فروغ دینے فراخدلانہ پالیسیوں کا آغاز کیا۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات مستحکم ہیں اور اس میں تجارتی خسارہ بھی ہوتا رہتا ہے جہاں تک تجارتی خسارہ کا سوال ہے ان دونوں ملکوں کے درمیان جو تجارتی خسارہ پایا جاتا ہے اس سے ہندوستان کی بہ نسبت بنگلہ دیش بہت متاثر ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ سے یہ امید کی جارہی ہے کہ ان کا یہ دورہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے مابین تجارت کو ایک نئی جہت عطا کرنے اور علاقائی وہ عالمی فورمس جیسے سارک، آئی او آر ۔ اے آر سی، ایس اے پی ٹی اے، جی ایس ٹی پی اور بمسٹیک میں تعاون و اشتراک بڑھانے اہم کردار ادا کرے گا۔ دونوں دارالحکومتوں کے درمیان کئی ایک ایسے مسائل ہیں جو حل طلب ہیں ان میں سب سے اہم مسئلہ دریائے تیستا کا آبی تنازعہ ہے جو حکومت مغربی بنگال کی تائید و حمایت اور تعاون و اشتراک کے بغیر دوستانہ ماحول میں حل نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں مغربی بنگال جیسی ریاست میں حکومت کی تبدیلی کی صورت میں ہی کولکتہ اور دہلی کے ساتھ ساتھ ڈھاکہ اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات میں بہتری پیدا ہوسکتی ہے۔
جہاں تک تاریخ کا سوال ہے تاریخ نے ہمیشہ ہند۔ بنگلہ دیش قریبی تعلقات کی تائید و حمایت کی ہے۔ ہندوستان وہ پہلا ملک تھا جس نے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا ورنہ ہندوستان کی تائید کے بغیر بنگلہ دیش کے ایک آزاد ملک ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ 1971 کی جنگ کے دوران جس میں 1947 کے بٹوارے کی تباہی و بربادی کی یادیں تازہ کردی تھیں اس جنگ کے دوران امریکی حکومت پوری طرح اسلام آباد کے ساتھ تھی۔ گھناؤنے جرائم، قتل عام اور فوج کے مظالم بھی وائٹ ہاوز کو پاکستان کے تئیں اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرسکے۔ الٹے امریکہ نے اپنے ساتویں بحری بیڑے کو بندرگاہ چٹگانگ کے قریب لانے اور ہندوستانی بحریہ کا راستہ روک دینے کی دھمکی دی تھی۔ اس وقت ہندوستانی بحریہ زمینی فورسیس اور مکتی باہنی کو زمینی مدد فراہم کررہا تھا۔ امریکہ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہاں تک کہا کہ چین کو ہندوستان کے خلاف ایک تیسرا محاذ کھولنا چاہئے لیکن چین نے ہندوستان کے ساتھ راست تصادم کے مشورہ کو مسترد کردیا کیونکہ چین یہ جانتا تھا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو سویت یونین کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف ہو جائے گا اور بحرہند کے علاقہ میں چین کے لئے راستہ مکمل طور پر بند ہوگا۔ چین نے اس وقت یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ ہندوستان اور بنگلہ دیش کی جیت یقینی ہے۔ 1971 کے 20 سال بعد طاقتور سویت یونین منتشر ہوگیا اور دو انٹری پوائنٹس ایک بحرہند۔ پاکستان میں گواڈر اور بنگلہ دیش میں چٹگانگ چین کیلئے چھوڑ گیا۔