کچھ کرنا ہے تو مسلمانوں کیخلاف نفرت کی مہم ختم کیجئے

   

رام پنیانی
بی جے پی کی انتخابی طاقت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور اس کیلئے اس زعفرانی جماعت نے مختلف میکانزم کا استعمال کیا ہے اور کررہی ہے جبکہ حکمراں جماعت کے حق میں کی جانے والی رائے دہی کا فیصد بڑھتا جارہا ہے۔ دوسری جانب انتخابی کامیابیوں کے باوجود بی جے پی اور اس کی قیادت دوسری جماعتوں کے منتخبہ نمائندوں کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ اپوزیشن کے بقول بی جے پی دوسری سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان و ارکان اسمبلی کو دولت و اقتدار کا لالچ دے کر ان کی وفاداریاں تبدیل کررہی ہے۔ اپوزیشن کے منتخبہ نمائندوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے بی جے پی نے مختلف انداز اور طریقے اپنائے ہیں۔ اس دوران معاشرہ میں بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مسلمانوں بڑے پیمانے پر بی جے پی کے حق میں ووٹ کا استعمال نہیں کرسکتے لیکن یہ پوری طرح سچ نہیں ہے۔
حال ہی میں بی جے پی کی قومی عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مودی نے اپنے پارٹی ورکرس اور قائدین کو مشورہ دیا کہ وہ سماج کے ان طبقات تک رسائی حاصل کریں جو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیدا کردہ ’’بی جے پی خوف‘‘ (یعنی بی جے پی سے ڈر) کے نتیجہ میں اسے ووٹ نہیں دیتے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ بی جے پی خود اپنے اقدامات اپنی کارروائیوں کیلئے بھی اپوزیشن کو ذمہ دار قرار دے رہی ہے، حالانکہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ بی جے پی سے دُور رہنے والے معاشروں میں بی جے پی کے اقدامات (بی جے پی قائدین اور اس کے حامیوں کے اشتعال انگیز بیانات) سے خوف پایا جاتا ہے۔ بی جے پی قائدین یہاں تک کہ بعض مرکزی وزراء نے اشتعال انگیز بیانات جاری کئے اور بالخصوص بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ بھی کہا جارہا ہے، اس سے ان میں خوف پایا جاتا ہے۔
جہاں تک مسلم برادری کا سوال ہے، اسے بلڈوزروں کی طاقت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی مبصر زینب سکندر نے مسلمانوں کو بیجا طور پر بلڈوزروں اور گرفتاریوں کے ذریعہ نشانہ بنائے جانے سے متعلق تبصرہ کچھ یوں کیا: ’’ایک ایسے شخص کو جس کے دونوں بازو نہیں مدھیہ پردیش کے کھر گاؤں میں سنگباری کا ملزم قرار دیا گیا۔ اس معذور شخص کی آمدنی کا ذریعہ اس کی دکان تھی۔ حکومت مدھیہ پردیش کے کے حکم پر اس دکان پر بھی بلڈوزر چلا دیئے گئے، آپ اس مجبور و بے بس انسان کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ اس کے چہرے پر ناگواری اور بیزاری کے ساتھ ساتھ مایوسی کے آثار نمایاں ہیں پھر بھی اسے ہر حال میں زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانا ہے لیکن مسلمانوں کیلئے یہ تو روز کی حقیقت ہے۔ ان مسلمانوں کو مسلسل نفسیاتی طور پر کمزور کیا جارہا ہے۔ ان پر سازش، غذا، غیرقانونی تارکین وطن ہونے فسادی اور سنگباری کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہے۔
زعفرانی طاقتیں (گروپس) اکثر مسلمانوں پر یہ الزام عائد کرتی ہیں کہ مسلمان خود کو فرقہ وارانہ تشدد کا شکار اور متاثر بتاتے ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو فرقہ وارانہ فسادات یا تشدد سے سب سے زیادہ مسلمان ہی متاثر ہوتے ہیں۔ مرنے والوں اور گرفتار ہونے والوں میں بھی اکثر مسلمان ہوتے ہیں۔ آج بھی ملک کی جیلوں میں اگر سب سے زیادہ کسی برادری کے قیدی ہیں تو وہ مسلمان قیدی ہی ہیں۔ اس کے علاوہ پرامن احتجاج کرنے والے امن کے جہدکار ہیں جنہیں جان بوجھ کر جیلوں میں ٹھونسا گیا ہے۔ وہ ’’آلٹ نیوز‘‘ کے شریک ِ بانی محمد زبیر کی طرح خوش قسمت نہیں کہ ضمانت حاصل کریں (محمد زبیر کو بھی قومی اور بین الاقوامی سطح پر آوازیں اُٹھنے کے نتیجہ میں ضمانتیں مل سکی ورنہ ان کا بھی حال عمر خالد، شرجیل امام اور صدیق کپن کی طرح ہوتا)
مذکورہ حقائق کی روشنی میں کوئی بھی گوپال سنگھ کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ اور اس کے نتیجہ کو یاد کرسکتا ہے۔ اس طرح رنگناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی کی رپورٹس کا حوالہ بھی دے سکتا ہے۔ ان رپورٹس نے ہمیں بتایا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا معاشی اور سماجی رتبہ یا موقف سماجی اہرام میں نیچے کی جانب رواں دواں ہے یعنی زوال کا شکار ہے جبکہ بی جے پی اور اس کے قبیل کی دوسری جماعتیں تنظیمیں اقلیتوں کی خوشامدی جیسی اصطلاح استعمال کرنے میں تھوڑی سی بھی شرم محسوس نہیں کرتی۔ اس اصطلاح کے برعکس مسلم اقلیت کی سماجی و اقتصادی حالت بگڑتی جاری ہے اور اب ہمیں یہ یقین کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے کہ بی جے پی کے خلاف مسلمانوں میں خوف اپوزیشن جماعتوں نے پیدا کیا، اسی وجہ سے اقلیتیں بی جے پی سے دُوری اختیار کئے ہوئے ہیں چنانچہ اب وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں وہ بھی پسماندہ مسلمانوں تک پہنچنے کیلئے رسائی مہم شروع کرنے کی اپنے پارٹی قائدین و کارکنوں کو مشورہ دیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس مہم کے ذریعہ پسماندہ مسلمانوں کو راغب کرسکیں۔ بی جے پی کے قریب لاسکیں، ہوسکتا ہے کہ ان کے ذہن میں کئی ایک مقاصد ہوں گے، اس کے ذریعہ ان کا یہ مقصد ہوگا کہ مسلم برادری کو ذات پات ؍ اقتصادی (معاشی حالت) کے خطوط پر تقسیم کرکے بی جے پی کے قریب کیا جائے۔ اس ضمن میں ہمارے سامنے آر ایس ایس کی مثال موجود ہے۔ بی جے پی اور ہندوتوا کی دیگر سطحوں کی سرپرست اس تنظیم نے مسلمانوں کو قریب کرنے کی خاطر مسلم راشٹریہ منچ شروع کی۔ مسلم راشٹریہ منچ اس بات کا پروپگنڈہ کررہی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اور ہندو ایک ہی آباء و اجداد کی اولاد ہیں اور آپ لوگوں (مسلمانوں کا) کا طریقۂ عبادت تبدیل ہونے سے قوم تبدیل نہیں ہوتی۔ (آر ایس ایس ، بی جے پی والوں کو مسلمانوں نے بار بار یہ بتایا ہے کہ ہم سب ایک ہی باپ آدم کی اولاد ہیں)
پسماندہ مسلمان
جہاں تک لفظ ’’پسماندہ‘‘ کا سوال ہے، یہ ایک فارسی لفظ ہے جس کے معنی پیچھے جانا ہیں۔ بلالحاظ مذہب و ملت پات رنگ و نسل کوئی بھی پسماندہ ہوسکتے ہیں جیسے درج فہرست طبقات و قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات ( او بی سیز) کو پسماندہ طبقات میں وسیع پیمانے پر شامل کیا جاسکتا ہے اور شامل بھی ہیں اور مسلمانوں میں دوسرے سماجی درجات ہیں۔ اشراف جو سید ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، اجلاف (او بی سیز کے مساوی) اور ارزال جو مسلمانوں میں پائی جانے والی ذاتوں میں سب سے نچلے درجہ پر ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں نے ذات پات کے روایتی نظام اور اعلیٰ ذات والوں کے ظلم و جبر سے بچنے کیلئے اسلام قبول کیا تھا، لیکن ہندوستان میں ذات پات کا نظام بڑی گہرائی سے سرایت کرگیا ہے جس سے مسلمان، عیسائی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں بھی متاثر ہوئے ہیں۔بحیثیت مجموعی لفظ ’’پسماندہ‘‘ بنیادی طور پر نچلی ذات کے ان مسلمانوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جنہیں مثبت کارروائی کے عمل سے دور رکھا گیا۔ خاص طور پر منڈل کمیشن کے ذریعہ لایا گیا۔اس کمیونٹی میں دلت (ارزال) اور بیاگ ورڈ مسلمان (اجلاف) منڈل کمیشن رپورٹ کی بنیاد پر 27% تحفظات او بی سیز کیلئے شروع کئے گئے ان میں سے 79 ذاتیں مسلم برادری سے تھیں اور تقریباً تمام پسماندہ برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ مابقی 15% مسلمانوں کو اعلیٰ ذات یا اشراف سمجھا جاتا ہے۔ پسماندہ مسلمانوں میں ذاتوں کا تعین عام طور پر ان کے پیشوں سے کیا جاتا ہے۔ پسماندہ مسلمانوں میں ملک (تپلی)، مومن انصار(بافندے) قریشی (قصائی)، سلمانی (حجام) اور حواری (دھوبی) شامل ہیں۔ منڈل کمیشن نے مسلم برادری کی کئی ذاتوں کو OBC درجے دیئے لیکن ان میں سے بعض کو اس زمرہ میں شامل نہیں کیا گیا جن سے ان کا تعلق ہے۔ اس طرح وہ انتہائی شدت سے درکار انتہائی اقدامات سے محروم رہے۔
یہ سچ ہے کہ مسلم برادری میں زیادہ تر تنظیموں پر اشراف کی اجارہ داری ہے۔ ایک پسماندہ گروپ کے بانی علی انور کہتے ہیں کہ 1998ء میں پسماندہ مسلم محاذ قائم کیا گیا اور ہم وزیراعظم کے حالیہ بیان کا خیرمقدم نہیں کرتے۔ ہم حکومت اور سرکاری عہدیداروں سے سیاست دانوں سے اپنا حق مانگ رہے ہیں جس سے ہمیں محروم رکھا گیا۔ آپ نے رسائی مہم شروع کی ٹھیک ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم کا خاتمہ کیجئے اور سماجی و معاشی طور پر کمزور مسلمانوں کیلئے مثبت اقدامات شروع کیجئے۔