کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور رقیم والے ہماری ان نشانیوں میں سے ہیں

   

کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ غار والے اور رقیم والے ہماری ان نشانیوں میں سے ہیں جو تعجب خیز ہیں۔ ( سورۃ الکہف ؍۹)
گزشتہ سے پیوستہ … اِسی طرح کا احساس اِن میں بھی یقیناً ہوگا۔ دور سے دیکھنے والے انہیں بیدار خیال کرتے حالانکہ وہ محو خواب تھے۔ ان کے ساتھ ایک کتا بھی ہو لیا تھا۔ انہوں نے اِسے بھگانے کے لیے بڑے جتن کئے لیکن اِس نے ساتھ نہ چھوڑا۔ جب وہ غار میں جاکر آسودہ خواب ہوگئے تو وہ بھی پاسبانی کی خاطر غار کے دہانے پر پاؤں پھیلا کر بیٹھ رہا۔اس طرح ایک سو ستاسی برس کا عرصہ گزر گیا۔ ڈیسیس کیفر کردار کو پہنچا۔ مختلف بادشاہ آئے اور اپنی چند روزہ شاہی کا ڈنکا بجا کر چل دئیے۔ پرانے شہر اُجڑے نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ افیس کے شہر میں بھی اس دو سو سال کے زمانہ میں کیا شکست و ریخت نہ ہوئی ہوگی۔ جب حکمت الٰہی نے چاہا تو اِن سونے والوں کو بیدار کر دیا۔ وہ آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ بیٹھے۔ خیال انہیں بھی گزرا کہ وہ آج معمول سے کچھ زیادہ ہی سوئے ہیں۔ لیکن یہ بات اُن کے شان و گمان میں بھی نہ تھی کہ اُن کو یہاں بےسدھ پڑے دو صدیاں بیت گئی ہیں۔ اس لئے وہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ وہ کتنی دیر سوئے ہیں۔اِن کی آنکھیں کیا کھلیں کہ بشری تقاضے بھی بیدار ہوگئے۔ اُنہیں بھوک نے ستانا شروع کر دیا۔ اُنہوں نے اپنے ایک ساتھی کو جس کا نام یملیخار بتایا جاتا ہے، بستی کی طرف بھیجا کہ اُن کے لیے کھانا خرید لائے۔ جب وہ غار سے نکل کر شہر کی طرف روانہ ہوا تو وادی وکوہسار وہی تھے لیکن ماحول میں اجنبیت کے آثار قدم قدم پر حیران کر رہے تھے۔ شہر میں گئے تو درودیوار، گلی کوچے زبان حال سے کچھ اور ہی داستان سنا رہے تھے۔