کیا تم نے (غور سے) دیکھا ہے آگ کو جو تم سلگاتے ہو (سچ سچ بتاؤ) کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم ہی پیدا کرنے والے ہیں۔ ہم نے ہی بنایا اس کو نصیحت اور فائدہ مند مسافروں کے لیے ۔ (سورۃ الواقعہ ۷۱ تا ۷۳ )
انسانی تمدن کی ترقی اور معاشرہ کی بہبود میں آگ کو جتنا دخل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ اس سے گرمی حاصل کی جاتی ہے۔ اس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ اس سے طرح طرح کے کھانے پکائے جاتے ہیں۔ صنعت وحرفت میں اس سے کام لیا جاتا ہے۔ غرضیکہ اگر آگ کا وجود نہ ہوتا تو زندگی کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توجہ اپنی اس گراں قدر نعمت کی طرف مبذول کرا رہا ہے۔عرب میں دو درخت تھے۔ ایک کا نام مرخ تھا اور دوسرے کا نام عفار۔ مرخ کو اوپر عفار کو نیچے رکھ کر جب رگڑا جاتا تو اس سے پانی کے قطرے ٹپکتے جن سے آگ نکلنے لگتی۔ اوپر والی لکڑی (مرخ) کو زند کہا جاتا اور نیچے والی لکڑی (عفار) کو زندہ کہا جاتا۔ اس سے درخت سے مراد وہ سارے درخت بھی ہوسکتے ہیں جو ایندھن کا کام دیتے ہیں۔ قواء : اس زمین کو کہتے ہیں جو بنجر اجاڑ ہو اور آبادی سے بہت دور ہو۔ مسافر کو مقوی کہتے ہیں، کیونکہ بسا اوقات سفر میں انہیں ایسے مقامات پر فروکش ہونا پڑتا ہے جہاں پانی وغیرہ دستیاب نہیں ہوتا۔اگرچہ آگ مقیم اور مسافر سب کے لئے مفید ہے، لیکن ایک مسافر کے لئے اس کی افادیت بہت زیادہ ہے۔ نیز ویران ریگزاروں میں جب آگ جلتی ہے تو اس کی روشنی میلوں تک دکھائی دیتی ہے۔ کئی راہگیر جن کی کوئی پناہ نہیں ہوتی آبادی کے اس نشان کو دیکھ کر وہاں آجاتے ہیں۔ عرب کا یہ دستور تھا کہ وہ رات کے وقت اپنے ڈیروں پر اونچی جگہ الاؤ روشن کردیتے تھے۔ بھولے بھٹکے مسافر وہاں آجاتے اور وہ ان کی خاطر مددارات کرتے۔