کیا حکومت کو آئینہ دکھانا جرم ہے ؟

   

ملک میں کئی گوشوں کی جانب سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کا رواج رہا ہے ۔ ہندوستانی جمہوریت کا یہ امتیاز رہا ہے کہ یہاں اختلاف رائے رکھنے والوںکو بھی احترام دیا جاتا تھا ۔ ان کی تجاویز اور تنقیدوںکو بھی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ان کی رائے کو قبول کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی تھی ۔ کئی مواقع پر حکومت نے اپوزیشن کی تجاویز کو قبول کیا ہے اور کئی مواقع پر اپوزیشن نے حکومت کے کاموںکی ستائش بھی کی ہے ۔ تاہم اختلاف رائے ہمیشہ رہا ہے اور اسی کو جمہوریت کی انفرادیت بھی کہا جاتا رہا ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میںد یکھا گیا ہے کہ حکومت یا وزراء کو تنقید کا نشانہ بنانے والوںکو برداشت نہیں کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کو آئینہ دکھانے والوںاور اس کے وعدوں کی یاد دہانی کروانے والوں کو بخشنے حکومتیں تیار نہیں ہیںاور ان کے خلاف بے بنیاد اور غیرواجبی مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں جیلوںمیں بھیجا جارہا ہے ۔ یہ جمہوری اصولوںکے یکسر مغائر ہے ۔ ہر ایک کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق ہے ۔ یہ حق ملک کے مفاد میں استعمال ہونا چاہئے اور سوشیل میڈیا میں کئی لوگ اس کا استعمال کرتے ہوئے حکومت کو آئینہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں گرفتار کرکے سنگین مقدمات درج کئے جا رہے ہیں اور کئی مہینوں انہیں جیلوںمیں بند رکھا جا رہا ہے ۔ صدیق کپن اس کی مثال ہیں۔ اترپردیش میں خاص طور پر ایسا کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کی مڈ ڈے میل اسکیم میں روٹی اور نمک فراہم کرنے کا انکشاف کرنے والے یوٹیوبر کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔ ہاتھرس واقعہ میں کئی صحافیوںکو نشانہ بنایا گیا ۔ گذشتہ دنوں اترپردیش کی ایک وزیر کو ان کے وعدے یاد دلانے پر ایک اور سوشیل میڈیا کارکن کو گرفتار کرکے اس کے خلاف مقدمہ درج کردیا گیا ۔ تاہم عدالت نے اس معاملے میں فوری حرکت میں آتے ہوئے اس یوٹیوبر کو ضمانت فراہم کردی ۔ تاہم بے شمار میڈیا کارکن ایسے ہیں جو اب بھی حکومت کی کاوشوںسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ نہ ان کے خلاف چارچ شیٹ دائر کی جا رہی ہے اور نہ ہی ان کی ضمانتوں کا موقع دیا جا رہا ہے ۔
اترپردیش میں اور جہاں جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں میڈیا کو کنٹرول میں کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ملک کا جو میڈیا ہے وہ پہلے ہی تلوے چاٹنے میںمصروف ہوگیا ہے ۔ حکومت کی ناکامیوںکو اجاگر کرنے اور اس سے سوال کرنے کی بجائے اپوزیشن کو کچلنے میں میڈیا بھی سرگرم رول ادا کر رہا ہے ۔ بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل پر مباحث کروانے اور رائے عامہ ہموار کرنے کی بجائے اختلافی اور نزاعی مسائل تلوے چاٹو اینکروں کا محبوب مشغلہ بن گئے ہیں۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح کیا ہوگئی ہے ۔ اس بات سے کوئی سروکار نہیں رہ گیا ہے کہ مہنگائی کس حد تک پہونچ گئی ہے ۔ انہیں صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ ہندو ۔ مسلم تنازعہ کس طرح سے پیدا کیا جائے اور نفرت کے ماحول کو کس طرح سے فروغ دیا جائے ۔ سماج میں یکجہتی اور اتحاد پیدا کرنے میں میڈیا کو کوئی دلچسپی نہیں ہے انہیں صرف ایک مخصوص نظریہ کوفروغ دینے کا ذمہ سونپ دیا گیا ہے اور وہ اس میںایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میںسوشیل میڈیا کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے ۔ سوشیل میڈیا پر لوگ اپنے مسائل کو پیش کر رہے ہیں۔ حکومتوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ حقائق کو منظر عام پر لایا جا رہا ہے جس سے ملک کا میڈیا نظریں چرا رہا ہے ۔ ایسے میں اگر سوشیل میڈیا کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے ۔ اس سے ملک کے عوام میں بھی ایک طرح سے عدم اطمینان کی کیفیت پیدا ہوگی ۔
آج کے انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں حقائق اور سچائی کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جاسکتا ۔ سوشیل میڈیا اس حد تک سرگرم ہوگیا ہے کہ لوگ فوری حقائق کو عوام کے سامنے لانے میں جٹ گئے ہیں۔ حکومتیں عوام سے وعدے کرتے ہوئے انہیں فراموش کردیتی ہے اور ان کے ووٹ حاصل کرلینے کے بعد انہیں نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ ایسے میں اگر حکومتوں کو ان کے وعدے یاد دلائے جائیں تو یہ جرم نہیں ہے ۔ حکومتوں کو اپنے اقتدار کے زعم میں اس طرح کسی کو نشانہ بنانے سے گریز کرنا چاہئے ۔ جمہوری اصولوںکو مستحکم کرنا ہے تو اختلاف رائے کو قبول کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو فی الحال نہیں پایا جاتا ۔