روس کے برآمد شدہ تیل کا نصف حصہ یوروپی ممالک کو بھیجا جاتا ہے
میساچوسٹس۔یومیہ اساس پر روس 11ملین بیرل خام تیل کی پیدوار کرتا ہے۔ اپنے داخلی مانگ کے لئے باہر آنے والے اس تیل کاوہ بڑی مشکل سے نصف حصہ استعمال کرتا ہے‘ جو عمومی طور پر بڑے پیمانے پر فوجی ضرورتوں کی وجہہ سے بڑھا ہے‘ اور 5سے 6ملین بیرلس فی دن درآمد کرتا ہے۔
آج کی تاریخ میں امریکہ کے بعد دنیاکا دوسرا بڑا تیل برآمد کرنا والا ملک روس ہے اور ان دونوں کے درمیان میں سعودی عربیہ ہے مگر بعض اوقات اس ترتیب میں تبدیلی بھی آتی ہے۔
روس کے برآمد شدہ تیل کا نصف حصہ جو2.5ملین بیرلس یومیہ پر مشتمل ہے یوروپی ممالک کو بھیجا جاتا ہے جس میں جرمنی‘ اٹلی‘ دی نیدرلینڈس‘ پولینڈ‘ فن لینڈ‘ لیتھونیا‘ گریس‘ رومانیا اور بلغیریا کے شامل ہیں۔
ایک تہائی کے قریب بیلاروس کے ہوتے ہوئے دروزہا با پائپ لائن کے ذریعہ یوروپ پہنچتا ہے۔یہ 700,000بیرلس فی دن پائپ لائن کے ذریعہ منتقلی پر پابندیوں کاکچھ اثر یقینی پڑیگا‘ یا تو مالی ادائیگیوں پر امتنا ع یا پھر بیلاروس سرحد سے اسپورلائنس کے ذریعہ ڈیلیوریز سے انکار کی شکل میں یہ ہوگا۔
سال 2019میں یوروپ نے اس وقت درزباہا لائن سے تیل کی ترسیل کوقبول کرنے سے انکار کردیاتھا جب ارگنک کلورائیڈس اس میں پایاگیا تھا جو مشق کے دوران تیل ریفائنریز کو نقصان پہنچانے کام کرسکتے تھے۔
روس کے تیل کی ترسیل میں نمایاں کمی ائی تھی کیونکہ اس نے درزباہا لائن سے بچنے کے لئے بہاؤ کا راستہ تبدیل کیاتھا۔ یوروپ کے لئے روسی خام تیل کی ماباقی ترسیل بنیادی طور پر مختلف بندرگاہوں سے پانی کے جہاز سے ہوتی ہے۔دوسرا بڑا خریدار چین ہے۔
روسی خام تیل کی یومیہ 1.6ملین بیرلس کی یہ درآمد کرتا ہے۔ نصف خصوصی راست پائپ لائن سے آتا ہے جس کے لئے ایسٹرین سائبریا پیسفک اوشین پائپ لائن کا استعمال کیاجاتا ہے‘ جو دیگر صارفین کی بندرگاہ کے اپنے آخری حصہ کے ذریعہ مدد کرتا ہے جس میں جاپان اورساوتھ کوریا بھی شامل ہیں۔
اگر دوسری ممالک تیل کی درآمد کم کردیتے ہیں تو روس پر اس کا کیااثر پڑیگا؟۔
روسی تیل صنعت کے خلاف پابندیاں کااس کے قدرتی گیس کے بہاؤ کومحدود کرنے سے زیادہ اثر پڑیگا‘ کیونکہ روسی تیل کو اس کے مملکی بجب کے لئے زیادہ حساس اور اہم ہے۔
سال2021میں تیل کی درآمد سے روس نے 110بلین امریکی ڈالر کمائے‘ اس سے دوگنا زیادہ بیرونی ممالک کو قدرتی گیس کی فروخت کے ذریعہ کمائی کی ہے۔
اب جبکہ تیل عالمی سطح پر ایک اہم ضرورت بن گیا ہے‘ روسی تیل کا زیادہ تر حصہ یوروپ اور جی 7ممالک کوبرآمد کیاجاتا ہے تو اب وہ بند ہوجائے گا اور کسی اور مقام سے وہ حاصل کرلیں گے۔
پھریوروپ کے لئے سعودی عربیہ او رناروے جیسے ممالک سے تیل کی ترسیل بحال ہونے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔سعودی عربیہ نے 1986‘1998اور2019اور 2020میں مختصر وقت کے لئے قیمتوں میں تضادکی جنگ شروع جس سے روسی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔
مگر تیل کی منڈی کی موجودہ حالات قیمتوں کی جنگ کو ایک غیریقینی صورتحال میں تبدیل کردیتے ہیں‘ جس کی وجہہ سے طلب اوررسد کے درمیان میں ایک توازن برقرار ہے۔ ایسی صورت میں ہی قیمتوں پر جنگ کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے جب عالمی مانگ کساد بازاری کی وجہہ سے سکڑجاتی ہے۔