کیا شاہین باغ تحریک فی الحال معطل کر دینی چاہیے…؟

   

ظفر آغا
جس بات کا خدشہ تھا اس کے آثار صاف نظر آنے لگے ہیں۔ دہلی میں شاہین باغ میں جاری شہریت ترمیمی قانون مخالف تحریک کو بی جے پی منافرت کی سیاست کا رنگ دینے کی پوری کوشش میں لگ گئی۔ اصل میں 8 فروری کو دہلی اسمبلی کے چناؤ ہیں۔ یہاں کی زمینی کیفیت یہ ہے کہ بی جے پی کے لیے چناؤ میں شکست یقینی تھی۔ لیکن اگر نریندر مودی کی ناک کے نیچے دہلی کا چناؤ ہار گئی تو خود مودی کی آن میں بھٹّا تو لگے گا ہی، ساتھ ہی بی جے پی کی سیاسی مشکلیں بڑھتی چلی جائیں گی۔ کیونکہ پچھلے کچھ عرصے سے بی جے پی کو زیادہ تر اسمبلی یعنی ریاستی چناؤ میں لگاتار ہار کا سامنا رہا ہے۔ لوک سبھا چناؤ سے قبل بی جے پی کے ہاتھوں سے راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کا اقتدار نکل گیا۔ لوک سبھا چناؤ کے بعد مہاراشٹر اور پچھلے ماہ جھارکھنڈ بھی ہاتھوں سے جاتا رہا۔ رو دھو کر کسی طرح ہریانہ میں بی جے پی کی حکومت بنی۔ اب اگر دہلی بھی ہار گئے تو سارے ملک میں یہ شور مچ جائے گا کہ اب تو مودی گئے۔
اس لیے بی جے پی کے لیے دہلی کا چناؤ ہر قیمت پر جیتنا ضروری ہے۔ لیکن دہلی میں تو بی جے پی کا چناؤ جیتنا ناممکن نظر آرہا ہے۔ اس لیے اب کچھ کرو کہ کسی طرح ڈوبتی ناؤ بچ جائے۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی چناؤ جیتنے کا صرف ایک ہی نسخہ جانتی ہے، اور وہ ہے ہندو۔مسلم منافرت کی سیاست۔ بابری مسجد۔رام مندر تنازعہ کے وقت سے لے کر گجرات فسادات اور پھر لو جہاد اور موب لنچنگ اور بالا کوٹ تک بی جے پی منافرت کی سیاست کے ذریعہ ہی چناؤ جیتتی چلی آرہی ہے۔ لہٰذا دہلی میں بھی اب بی جے پی اسی نسخہ کا استعمال کر رہی ہے۔ شاہین باغ میں مسلم عورتوں کا شہری قانون کے خلاف شاندار دھرنا چل رہا ہے۔ شہری قانون لایا ہی اس لیے گیا ہے کہ ملک میں ہندو-مسلم منافرت کا سیلاب بہہ نکلے اور بی جے پی اگلے لوک سبھا چناؤ تک اسی کے ذریعہ چناؤ جیتتی رہے۔ اس لیے شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کو کسی طرح سے پاکستان امیج دے کر اس کو ہندو خطرے کا رنگ دے کر بی جے پی دہلی میں ہندو-مسلم کھائی اس قدر بڑھانا چاہتی ہے کہ ہندو شاہین باغ کے خطرے سے بچنے کے لیے بی جے پی کے دامن میں ووٹ ڈال دے۔
یہ ایک سنگین صورت حال ہے۔ کیونکہ سیکولر مزاج عوام اور سیاست کے لیے دہلی میں بی جے پی کا چناؤ ہارنا بہت ضروری ہے۔ ایک تو بی جے پی دہلی کا چناؤ شہری قانون کے ایشو پر لڑ رہی ہے۔ اس لیے جو لوگ اس قانون مخالف ہیں ان کی پوری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ بی جے پی دہلی میں چناؤ ہارے۔ لیکن شاہین باغ تحریک بھی شہری قانون مخالف تحریک ہے اور بی جے پی اسی تحریک کو ایک نئے ’بالا کوٹ‘ کا رنگ دے کر اپنے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اس صورت حال میں آخر کیا کرنا چاہیے اور اس موقع پر مودی مخالف قوتوں کی کیا حکمت عملی ہونی چاہیے۔ یہ دہلی چناؤ سے ایک ہفتہ قبل ایک سنگین سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے جس کا کوئی سیدھا اور آسان جواب دے پانا ممکن نہیں ہے۔
لیکن سیاست بڑی سوجھ بوجھ والا شطرنج کا ایک کھیل ہے جس میں اصل مقصد حاصل کرنے کے لیے مہرے آگے پیچھے کیے جاتے ہیں۔ اس لیے اس موقع پر بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ لیکن وہ حکمت عملی کیا ہو سکتی ہے! اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ بی جے پی مخالف گروپوں اور شہریت قانون مخالف ہر تحریک کا اولین مقصد یہ ہے کہ نریندر مودی کسی طرح کمزور پڑیں۔ اس نکتہ نگاہ سے مودی مخالف طاقتوں کے لیے بی جے پی کو دہلی میں چناؤ ہرانا لازمی ہے۔ لیکن شاہین باغ تحریک بھی مودی مخالف ہی تحریک ہے۔ اور یہ ایک انتہائی کامیاب تحریک ہے۔ اس تحریک نے نریندر مودی اور بی جے پی کی مسلم مخالف سیاست کو دنیا بھر میں عیاں کر دیا۔ پھر اسی تحریک کے پرچم تلے ملک کے ہندو، سکھ، عیسائی اور تمام سیکولر طاقتیں ملک بھر میں بی جے پی کے خلاف ایک پرچم تلے شہری قانون کے خلاف ایک جگہ اکٹھا ہو گئیں۔ اب دہلی میں ہی شاہین باغ حامی تحریک کے ایک بڑے حلقے میں یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ بی جے پی کو دہلی میں ہرانے کے لیے شاہین باغ تحریک کو فی الحال معطل کر دینا چاہیے۔
لیکن یہ کوئی آسان بات نہیں کہ اس قدر کامیاب تحریک کو یوں راتوں رات ختم کر دیا جائے۔ مگر جیسا عرض کیا ہے کہ سیاست میں کوئی بھی عمل حصول مقصد کی غرض سے کیا جاتا ہے۔ کسی بھی تحریک کا مقصد اپنے دشمن کو ناکام کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس وقت سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ بی جے پی دہلی کا چناؤ ہارے تاکہ مودی کے خلاف ملک بھر میں یہ میسج جائے کہ مودی کمزور ہو رہا ہے۔ پھر مودی جس شہری قانون کو ایشو بنا کر چناؤ لڑ رہے ہیں اس نکتہ نگاہ سے بھی دہلی میں مودی کو ہرانا لازمی ہے۔ لیکن اگر شاہین باغ تحریک دہلی میں اسی طرح چلتی رہی تو بی جے پی اور آر ایس ایس مل کر شاہین باغ کو ایک نئے بالا کوٹ کی شکل دے کر دہلی میں مسلم منافرت کا ایسا سیلاب بپا کر سکتے ہیں کہ جس کے سہارے بی جے پی دہلی کا ہارا ہوا چناؤ جیت سکتی ہے۔ اور اگر یہ ہوتا ہے تو شاہین باغ تحریک کا بنیادی مقصد ناکام ہو جائے گا۔ تو کیا ان حالات میں شاہین باغ تحریک کو ملتوی کر دینا چاہیے ؟
سیاسی سوجھ بوجھ کا تقاضہ تو یہی ہے کہ فی الحال شاہین باغ تحریک کا جاری رہنا مودی مخالف طاقتوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ شاہین باغ تحریک ایک انتہائی کامیاب تحریک ثابت ہوئی۔ اس کا جو مقصد تھا اس میں وہ بہت آگے تک گئی۔ اس تحریک نے مودی کی منافرت کی سیاست کو دنیا بھر میں عیاں کر دیا۔ اسی تحریک کی بدولت ساری دنیا میں شہری قانون کی آڑ میں مودی حکومت کی ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی سازش بھی عیاں ہو گئی۔ اور پھر اس تحریک کے ذریعہ ہی ملک کی سیکولر عوام مودی مخالفت میں اکٹھا ہو گئیں۔ لیکن اب اسی تحریک کو مودی اپنے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک شاہین باغ تحریک سے شہریت ترمیمی قانون مودی بدلنے والے نہیں ہیں۔ اس کے لیے پورے ملک میں مختلف تحریکیں چلانی ہوں گی۔ شاہین باغ نے وہ راستہ دکھا دیا ہے۔ اگلے چار سالوں میں اور بہت نئے نئے شاہین باغ پیدا کرنے ہوں گے۔ فی الحال مودی کو دہلی میں ہرانا لازمی ہے اور اس مقصد کے تحت حقیر کی ادنیٰ رائے میں شاہین باغ تحریک کو فی الحال معطل کرنا ہی سیاسی دانشمندی ہوگی۔