کیا مسجد کو منہدم کرنادین اسلام پر حملہ کرنا ہے؟

   

لغت میں مسجد کے معنی سجدہ گاہ کے ہیں اور اصطلاح میں مسلمانوں کی عبادت گاہ پر اس کا اطلاق کیا جاتا ہے، کیونکہ عبادت میں سب سے اہم ترین رکن سجدہ ہے، اس لئے اس کی اہمیت کے پیش نظر بندہ بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوکر اپنی عاجزی و مسکنت، تواضع و تذلل کا مجسمہ بن جاتا ہے اور اپنی جبین نیاز کو بارگاہ بے نیاز میں ٹیک کر اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اظہار کرتا ہے اور ’’سبحان ربی الأعلیٰ‘‘ کی صدائیں بلند کرتا ہے۔ بندے کی اسی عاجزی و فروتنی کو اجاگر کرنے کے لئے شریعت مطہرہ میں عبادت گاہ کے لئے لفظ ’’معبد‘‘ کی بجائے ’’مسجد‘‘ یعنی سجدہ گاہ کے نام کو اختیار کیا گیا ہے۔
زجاج کے مطابق مسجد ہر اس جگہ کو کہا جاتا ہے، جہاں عبادت کی جاتی ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’تمام زمین میرے لئے عبادت گاہ اور پاک بنادی گئی ہے‘‘ (بخاری) اسلام میں اس مخصوص عمارت کو جو صرف عبادت خداوندی کے لئے تعمیر کی جائے، مسجد کہتے ہیں۔لفظ مسجد کا استعمال قرآن مجید کی مکی سورتوں میں زیادہ تر مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے لئے ہوا ہے (سورہ بنی اسرائیل) سورہ کہف میں اصحاب کہف کے مزار کے پاس بھی ایک عبادت گاہ پر لفظ مسجد کا اطلاق ہوا ہے: ’’لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْـهِـمْ مَّسْجِدًا‘‘ (سورہ کہف۔۲۱) مسجد کا کثرت سے استعمال مدنی عہد میں مسلمانوں کی مخصوص جائے عبادت پر ہوا ہے۔
دنیا بھر کی مساجد میں بیت اللہ شریف کو خصوصی عزت و احترام حاصل ہے۔ اس کے اس مرتبہ اور مقام کی بناء پر اس کو ’’مسجد الحرام‘‘ یعنی حرمت و عزت والی مسجد کہا گیا ہے۔ ہر صاحب استطاعت مسلمان پر اس کا حج کرنا فرض کیا گیا ہے۔ (سورہ آل عمران۔۹۷)
مکہ مکرمہ میں جب مخالفین نے اہل اسلام کو نت نئی تکلیفیں دیں اور مسلمانوں میں بعض لوگ ملک حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کی غرض سے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے اور برک الغماد کے پاس پہنچے، جو مکہ سے پانچ راتوں کی مسافت پر یمن کی طرف واقع تھا۔ ان کی ملاقات قبیلہ کے سردار ابن الدغنہ سے ہوئی۔ حضرت ابوبکر سے ہجرت کی خبر سن کر وہ بہت رنجیدہ ہوئے اور آپ کو واپس مکہ مکرمہ لاکر اپنی پناہ میں رکھنے کا اعلان کیا۔ حضرت ابوبکر کو اپنے گھر میں عبادت کی اجازت مل گئی، مگر اہل مکہ نے چند شرائط رکھے کہ آپ گھر کے باہر قرآن کی تلاوت نہ کریں اور گھر میں بلند آواز سے قرآن مجید نہ پڑھیں۔ اس میں ان کی عورتوں اور بچوں کے متاثر ہونے کا اندیشہ کیا گیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد تعمیر کی، اس میں نماز پڑھی (بخاری) مولانا احمد علی محدث سہارنپوری کے بقول یہی حضرت ابوبکر کی مسجد پہلی مسجد تھی، جو دور اسلام میں بنائی گئی۔
نبی اکرم ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ نے سب سے پہلے بنوعمرو بن عوف کے قبیلہ میں کم و بیش چودہ دن قیام فرمایا۔ وہاں آپﷺ نے مسجد تعمیر کرنے کا حکم فرمایا اور یہی وہ مسجد ہے، جس کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ ’’وہ مسجد ہے جو اللہ کے خوف اور تقویٰ کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ہے‘‘ (جامع بخاری) یہی مسجد ’’مسجد قباء‘‘ کہلائی۔
دنیا بھر کی مساجد مسجد حرام کی فروع ہیں، لہذا قرآن کریم میں ان کے حقوق و آداب کی طرف بھی واضح ارشادات کئے گئے ہیں اور کثرت سے اس کے فضائل منقول ہیں۔مساجد خواہ کسی علاقہ کی ہوں، اللہ اللہ تعالیٰ کے مقدس و متبرک گھر ہیں۔ اہل اسلام ان کی بے حد عزت و توقیر کرتے ہیں، مساجد میں نماز کے لئے جانا بے حد ثواب اور فضیلت کا موجب بنتا ہے۔ ایک حدیث شریف میں ہے، نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص گھر سے وضو کرکے مسجد میں نماز کی نیت سے نکلے، اس کا ثواب اس شخص جیسا ہے جو احرام باندھ کر حج کے لئے نکلا ہو‘‘۔ ایک نماز کے بعد دوسری نماز، بشرطیکہ ان دونوں کے درمیان کوئی کام یا کلام نہ ہو، علیین میں لکھی جاتی ہے اور جو لوگ اندھیروں میں مساجد کو جاتے ہیں، اُن کیلئے قیامت کے روز مکمل نور کی بشارت ہے (مسلم) نیز آپﷺ نے فرمایا: ’’مسجد میں نماز پڑھنا، گھر میں نماز پڑھنے سے زائد ہے‘‘۔ دوسری روایت کے مطابق ۲۷ درجہ افضل ہے۔ علاوہ ازیں ’’جو شخص گھر سے وضو کرکے نماز کے لئے روانہ ہو، اس کے ہر قدم پر ایک درجہ بلند ہوتا ہے، ایک گناہ معاف ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ مسجد میں پہنچ جائے۔ جب تک نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے، اس کو نماز کا ہی ثواب ملتا رہے گا اور فرشتے اس کے حق میں دعائے مغفرت جاری رکھتے ہیں، جب تک وہ کسی کو ایذا نہ پہنچائے اور اس کا وضو نہ ٹوٹے‘‘۔ (صحیح مسلم)
نیز آپﷺ نے فرمایا: ’’دنیا کے تمام خطوں میں مسجدیں خدائے تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں‘‘ (مسلم) اسی بناء پر آپﷺ نے مساجد کی تعمیر کو جنت میں اپنا گھر بسانے سے تعبیر فرمایا (بخاری) نیز مسجد میں صبح اور شام کے کچھ لمحات گزارنے کو جنت میں خدا کی مہمانی قرار دیا۔ (مسلم)اس شخص کو جس کا دل مسجد سے لگا ہوا ہو، ان سات خوش نصیب افراد میں شمار فرمایا، جنھیں قیامت کے روز جب کہ سایہ خداوندی کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا، فضل الہی سے عرش الہی کا سایہ نصیب ہوگا (بخاری و مسلم) اور فرمایا: ’’جو شخص مسجد کی خبر گیری کرتا ہو، تم اس کے ایمان کی شہادت دو‘‘ (مشکوۃ المصابیح، کتاب المساجد) ارشاد فرمایا: ’’مسجدیں جنت کی چراگاہیں ہیں، جب تم ان کے پاس سے گزرو تو چر لیا کرو، یعنی عبادت و تسبیح کرلیا کرو‘‘۔
الغرض مساجد تعمیر کرنے، انھیں آباد رکھنے، ان کی خبر گیری اور سب سے بڑھ کر ان میں فریضۂ صلوۃ و عبادت بجالانے کی بڑی فضیلت ہے بیان کی گئی ہے۔ مسجد اللہ کا گھر ہے، اس کی حفاظت تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے۔ اس کی ایک انچ زمین کو نہ کوئی فروخت کرسکتا ہے، نہ ہبہ کرسکتا ہے، نہ رہن رکھ سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو مفاہمت کرنے کا حق حاصل ہے۔ مسجد اسلام کے شعائر میں ہے، اس کو منہدم کرنا گویا اسلام کے ایک اہم ترین شعائر کو منہدم کرنا ہے اور دین اسلام پر حملہ کے مترادف ہے۔ اس کی بازیابی اور حصول تک جدوجہد کرنا ہر مسلمان کا ایمانی فرض ہے، اس سے غافل ہونا ضعف ایمان کی علامت ہے۔