کیا مودی حکومت نے چین کے بارے میں نہرو دور کی غلطی کا اعادہ کیا؟

   

شیکھر گپتا
ہم بے چینی سے مشرق لداخ کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہمیں ایک تلخ سچائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ این ڈی اے حکومت کے ابتدائی پانچ سال میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بہت بڑی دفاعی غلطی کا اعادہ کیا تھا۔ نہرو دور کی غلطی کو دہرایا تھا اور ہم اس کو بطور دلیل استعمال کرتے ہیں کہ 1955 تا 1962 میں نہرو نے اسی غلطی کا ارتکاب کیا تھا۔
ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ جب مودی نے چین سے ہندوستان کی فوج کے لئے خطرہ محسوس کیا اور انہیں اپنے معاشی مفادات خطرہ میں نظر آئے تو اس نے ان کے خلاف روایتی جنگ چھیڑ دی۔ دلیل یہ تھی کہ ہم عالمی نظام کا ایک حصہ نہیں ہیں بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے جنگ کررہے ہیں۔ یہ ایک سادہ سا بیان محسوس ہوتا ہے لیکن ہم اس کی تفصیل میں جائیں تو ہم معاشی تباہی سے تحفظ کا کوئی تیقن نہیں دے سکتے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے سمجھایا تھا کہ ایک خصوصی اجلاس میں جو انہوں نے سینئر ایڈیٹرس کے ساتھ منعقد کیا تھا کہا کہ جب امریکہ ایسی مخدوش صورتحال میں تھا جس میں کہ اب ہم ہیں اور چین نے ہمارے محفوظ ذخائر پر چھاپا مارا ہے اور یہ ذخیرے پھیل کر اپنی حدود سے باہر نکل رہے ہیں اور ہمیں امریکہ سے اپنے خسارہ کی تکمیل کے لئے مدد لینی پڑرہی ہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر چین ایسا کرتا تو ڈالر کی قیمت ختم ہوجاتی اور یووان مساوی طور پر مستحکم ہو جاتا۔ اس سلسلہ میں چین کی برآمدات ختم ہو جاتی۔ چینی ماہرین کے پاس کوئی نئی دفاعی توازن کی حکمت عملی نہیں تھی۔ کیونکہ کوئی جنگ جاری نہیں تھی۔ اس لئے یہ سوچنا بالکل غلط تھا کہ دفاعی بجٹ میں مزید رقم شامل کرنی چاہئے۔ ہندوستانی فوج نے اپنی جدید کاری نہیں کی۔ مودی حکومت کے 6 سال ہوچکے ہیں لیکن ہندوستانی دفاعی بجٹ کے اخراجات انحطاط پذیر ہیں اور اضافہ ہونے کی بجائے جی ڈی پی پر اس کے فیصد حصہ میں کمی آئی ہے۔

یہ دوہری ضرب تھی کیونکہ ہم مودی حکومت کے دور میں خاموش نہیں بیٹھ سکتے تھے اور ہمیں ان کے ذہن کا بھی کوئی اندازہ نہیں تھا اس لئے ہم درست اندازہ لگانے سے قاصر رہے۔ مئی 2014 میں مودی نے فرض کرلیا تھا کہ پاکستان کشمیر پر طاقت کے زور پر قبضہ کرسکتا ہے کیونکہ وہ ہندوستان کی فوجی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن ڈوکلم میں نمایاں تبدیلیاں 2017 کے موسم گرما کے اواخر میں پیش آئیں، ابتداء میں مودی نے پاکستان اور چین دونوں سے ربط پیدا کیا لیکن وہ منموہن سنگھ نہیں تھے اور نہ انہیں اپنا حق منوانے کا فن آتا تھا۔ اس لئے جہاں بھی وہ گئے انہوں نے صرف اپنی خواہش ظاہر کی۔ بعد ازاں اس کا نتیجہ کیا نکلا ہم سب جانتے ہیں۔ ہر جگہ پاکستان کی اپنی طاقت پہلے سے موجود تھی کیونکہ اس کا بھی ایک منتخبہ قاعد تھا اور اس نے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کی ٹھوس کوشش کی تھی۔
پاکستان ہندوستان کا خارجی دشمن تھا لیکن داخلی سیاست میں بھی حکومت کے دشمن موجود تھے بلکہ اس کے اپنے اہم حلقے اور اڈے یعنی آر ایس ایس میں تھے۔ پاکستان اپنے طور پر یہ دلیل دے سکتا ہے کہ وہ فوجی کارروائی کی دھمکیوں سے متاثر نہیں ہوگا اور نہ سرجیکل حملے اسے خوفزدہ کرسکیں گے۔ پلوامہ ۔ بالاکوٹ حملے اس کا واضح ثبوت ہیں۔ یوپی میں 2017 میں اور عام انتخابات 2019 میں منعقد ہوئے تھے دونوں مواقعوں پر مودی حکومت نے یہی دلیل پیش کی تھی ۔چین کے بارے میں انہوں نے مختلف رویہ اختیار کیا۔ ژی جن پنگ کو اپنے ملک کے دورہ کی دعوت دی۔ ایسا بھی ہوا کہ ژی جن پنگ کے آبائی قصبے میں جو ژیان میں واقع ہے۔ تجارتی اور سرمایہ کاری کے فوائد کو گہری دوستی کی شٹر میں لپیٹ کر پیش کیا گیا۔ اس لئے ہم نے چین سے ہندوستان کو خطرہ کا کوئی احساس نہیں کیا۔

صدر نشین چینی پی ایل اے نے لداخ کے کیومر سکٹر پر حملہ کیا لیکن ہم نے اپنی قوت برداشت کا مظاہرہ کیا۔ یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ یہ رویہ بالکل درست ہے جس کا ہم پورے صبر و تحمل کے ساتھ مشاہدہ کرتے رہے لیکن یہ مفروضہ کے غالباً یہ پی ایل اے کے جنرلوں کی کارروائی تھی غلط ہوگا کیونکہ پی ایل اے صدر چین ژی جن پنگ کی منظوری کے بغیر کوئی بھی فوجی کارروائی نہیں کرتی۔ جیسا کہ ہندوستان یا پاکستان میں ہوا کرتا ہے لیکن ہمارا یہ وہم اس وقت ختم ہو گیا جبکہ کیومر کی مہم میں چینی جرنیلوں نے شرکت کی لیکن انہیں صدر چین کی منظوری کے بغیر فوجی کارروائی کرنے پر سزا دینے کی بجائے ترقی دی گئی۔
غالباً یہ کوئی نیا واقعہ نہیں تھا بلکہ رافیل کی خریداری کے بعد اس کا اندیشہ تھا لیکن حملے کے وقت تک خریداری بھی نہیں ہوئی تھی لیکن 65 کے بجائے صرف 36 طیارے خریدے گئے، حالانکہ ہندوستانی فضائیہ نے 65 طیاروں کا مطالبہ کیا تھا لیکن 36 طیاروں کی خریدی بھی ملک کی سفارتکاری کا ایک نتیجہ تھی۔ واجپائی دور میں جنگ ناممکن تھی جیسا کہ انہوں نے اپنی انتہائی مشہور نظم میں کہا تھا ’’جنگ نہ ہونے دیں گے‘‘ بالاکوٹ پر حملے اور ایک دن بعد کا تصادم ہندوستان کے لئے ایک انتباہ کی حیثیت رکھتا تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے اسے بھلا دیا۔ مثال کے طور پر پاکستانی فضائیہ نے ہندوستانی فضائیہ کی بہ نسبت زیادہ طویل مسافتی میزائلس حاصل کئے تھے اور ہندوستانی فضائی کی طاقت کم ہوگئی تھی۔ پاکستان کی بہ نسبت چین کی فوجی طاقت اور بھی زیادہ سمجھی جاسکتی ہے۔
20 اپریل 2020 تک چین نے ان پر بے رحمانہ حملہ کردیا تھا۔ پہلی بات یہ کہ اس نے ہمارے سپاہیوں کو ہتھکڑیاں پہنا دی تھیں بعد ازاں ہلکا تشدد کیا گیا اور ابتدائی کارروائی کے طور پر چینی فوجیں ہندوستانی علاقہ میں دراندازی کرنے لگیں۔ آخر انہوں نے اسی وقت کا انتخاب کیوں کیا جبکہ کشمیر میں تبدیلیاں پیدا ہورہی تھیں اور چین سے اشتعال انگیزی کا سلسلہ جاری تھا۔

چین واجپائی دور کی ’’واجپائی ۔ برجیش مشرا سفارتکاری نظریہ‘‘ کا گہری نظر سے جائزہ لے رہا تھا۔ اس کے بعد بھی اس نے فیصلہ کیا کہ ہندوستان پر حملہ کیا جائے اور پاکستان پر اس کی برتری ختم کی جائے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چین لداخ میں ہمارے ساتھ جو کچھ کارروائی کرچکا ہے اس سے وہ فوائد حاصل کرے گا اور اس کی سفارتکاری دھمکانے کی سفارتکاری بن جائے گی کیونکہ ہماری فوج نے چین کے ساتھ مقابلہ میں 1962 کے ہندوستان کی بہ نسبت کمزور مظاہرہ کیا ہے جبکہ ہنگامی حالات میں امریکیوں سے بھی ہتھیار خریدے گئے تھے لیکن موجودہ حالات میں ہمیں موسم سرما کے ملبوسات فوج کے لئے خریدنے کی انتہائی اہم ضرورت ہے لیکن ہم اسی ہمالیائی غلطی کا دوبارہ اعادہ کررہے ہیں جو نہرو دور میں کی جاچکی ہے۔