کیا مودی نے ہندوؤں سے ترک تعلق کرلیا ہے؟

   

ڈی کے سنگھ
وزیراعظم نریندر مودی اس طرح حکومت کریں گے جبکہ ان کے ماضی کا دور ہندو حامی دور رہا ہے۔ ایک سنہرا دور ہندوؤں کے لئے ایک مذہبی دور حکومت کیا وہ آخر کار مظلومیت کے احساس سے چھٹکارہ حاصل کرسکیں گے یا پھر تصادم کا ایک اور دور شروع ہوگا جس میں انہیں ناکامی اور کامیابی ملی جلی حاصل ہوں گی۔ اس سوال کا جواب مذہبی عبادت گاہوں کے قانون کے بارے میں درخواست مفاد عامہ پر حکومت کے ردعمل کی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے۔
عبادت گاہوں کے قانون کی چال
پی وی نرسمہا راؤ حکومت نے قانون انسداد مذہبی تبدیلی پیش کیا جس کے تحت کسی بھی عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت کو جو 15 اگست 1947 کو تھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا تھا سوائے رام جنم بھومی۔ بابری مسجد عمارت ایودھیا کے جو ماورائے عدالتی فیصلہ تھی۔ تمام زیر التواء مقدمے اور عدالتوں میں قانونی کارروائیاں جو تبدیلیٔ مذہب کے خلاف ہیں خارج ہو جائیں گی۔ قانون سازی سے بھی تمام عدالتوں کو منع کردیا جائے گا وہ ایسی درخواستیں قبول نہیں کریں گی جو عبادت گاہوں کے مذہبی منصب کو ماقبل آزادی ہند کی تاریخ کو مذہبی نوعیت تبدیل کرنے پر امتناع عائد کرنے کا مطالبہ کرتی ہوں۔
سپریم کورٹ کی پانچ رکنی دستوری بنچ جو ایودھیا تنازعہ کی یکسوئی کرچکی ہے اور رام مندر کی 2019 میں تعمیر کے لئے اراضی مختص کرچکی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ تنازعات کے جو اسی نوعیت کے ہوں مذہبی عبادت گاہ قانون 1991 کی تائید کرتی ہوں، مسترد کردی جائیں۔ یہ قانون ہندوستانی سیاست کی سیکولر خصوصیت کا اظہار کرتا ہے جو دستور ہند کی بنیادوں میں سے ایک ہے۔
ہندوؤں سے ترک تعلق ۔ وقت کا تقاضہ
1991 کی قانونی سازی صرف مودی حکومت کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔ حکومت اگر پارلیمنٹ میں کوئی ایسا قانون پیش کرے جو ہندوتوا کی تائید میں ہو یا (مبینہ) تاریخی غلطیوں کو درست کرنے کے لئے پیش کیا جائے تو کون اس کی مخالفت کرسکے گا۔ اگر راہول گاندھی جنیو پہن کر خود کو ایک دتاتریہ برہمن ظاہر کرتے ہیں یا نوین پٹنائک اڈیشہ میں مندروں کی ازسرنو تعمیر کرتے ہیں یعنی ان کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے اقدامات کرتے ہیں تو اس پر کون اعتراض کرسکے گا۔
ایودھیا مندر کے لئے بھومی پوجن میں شرکت کرکے وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ اس بھومی پوجن سے صدیوں قدیم تپسیا کا نتیجہ حاصل ہوگیا ہے۔ آر ایس ایس اور موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ یہ نئے ہندوستان کی تعمیر کا آغاز ہے۔ بھاگوت نے اور ایودھیا کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے اشارہ ملتا ہے کہ سنگھ تحریک سے مطمئن نہیں ہے اور نہ آئندہ رام مندر کی کسی تحریک سے مطمئن ہوسکتی ہے۔ وہ اس کی تعمیر کے ارادے پر اٹل ہے۔ ماضی میں حالات مختلف تھے جس کی وجہ سے سنگھ پریوار (ایودھیا) تحریک کا حصہ نہیں بنا لیکن اس کی تعمیر میں شریک رہے گا اس طرح متھرا اور کاشی کے تنازعات کے بارے میں بی جے پی کی خاموشی سبرامنین سوامی اور ونئے کٹیار جیسے افراد کے اعتراضات کو خاموش کردے گی۔
روایت بمقابلہ سیاست
اس سوال کا جواب کیا ہوگا؟ اس بارے میں اندازہ لگانا بہت مشکل ہے جو مودی دور کے بارے میں مضمون کے ابتداء میں ہم نے کیا تھا۔ دو عناصر ایسے ہیں جن سے جواب کا تعین ہوگا۔ وزیر اعظم مودی کونسی مثال قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کا اظہار سنگھ پریوار کے سیاسی اور نظریاتی ایجنڈہ کو فروغ دینے میں کس طرح ظاہر ہوگا۔
دوسرے عنصر کے بارے میں پہلے تحریر پڑھتے ہوئے جیسا کہ میں نے گزشتہ ستمبر میں کہا تھا سنگھ پریوار کو اپنا موقف تبدیل کرنا ہوگا اور اس کو معاشرہ کا انداز فکر متھرا اور کاشی کے تنازعات کے بارے میں اپنانا ہوگا۔ چونکہ سیاسی وجوہات موجود ہیں، بی جے پی زیر قیادت حکومت ممکن ہے کہ اس بات کو اپنی ذمہ داری نہ سمجھے کہ پارلیمنٹ میں قانون کی منظوری کا دفاع کرے جو 1991 میں عدالتوں کے سپرد کیا گیا تھا۔ بی جے پی نے مسودہ قانون پر غور اور پارلیمنٹ میں اس کی منظوری کے وقت واک آؤٹ کیا تھا۔ اوما بھارتی لوک سبھا میں گرجتے ہوئے کہہ رہی تھیں ’’1947 کی حالت جوں کی توں برقرار رکھتے ہوئے آپ خوش آمدی کی پالیسی پر عمل کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ دیہاتوں میں بیل بنڈیوں کے مالکین بیل کی پشت زخمی کردیتے تھے اور جب چاہتے کہ بیل بنڈی تیزی سے دوڑے تو وہ اس زخم پر ضرب لگاتے تھے۔ اسی طرح یہ تنازعات ایسے ہی زخم ہیں اور غلامی کے نشان ہیں جو بھارت ماتا کا چہرہ داغدار کررہے ہیں۔ جہاں تک گیان واپی کا تعلق ہے جو موجودہ صورت میں بنارس میں موجود ہے یہاں پر ایک قبر بھی ہے جس کو پاواگر کے مندر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
ایک طرف سیاسی اور نظریاتی مجبوریاں ہیں جس کی وجہ سے برسر اقتدار مودی حکومت کو 1991 کے قانون سے دور رہنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ متبادل طریقہ کار بھی موجود ہے جس کی وجہ سے وزیر اعظم نریندر مودی کی جگہ تاریخ میں اپنا مقام پیدا کرنے کا خواہشمند کوئی بھی شخص عمل کرسکتا ہے اور ہندوؤں کے ’’ماضی کے درد‘‘ پر مرہم لگاسکتا ہے اور اپنے آپ کو ہندوستان میں پائیدار امن قائم کرنے والا ثابت کرسکتا ہے۔ چنانچہ اسی تہذیبی لمحہ کے موقع پر جبکہ رام مندر کی تعمیر کے لئے بھومی پوجن منعقد کیا گیا تھا بحیثیت سفارتکار اور ’’شیوا ٹرائیلوجی‘‘ کے مصنف امیش تریپاٹھی نے ایڈیٹر انچیف دی پرنٹ شیکھر گپتا سے خلیج کے ساحل پر کہا تھا۔
وزیر اعظم مودی کے پاس غور کرنے کے لئے کافی وقت ہے کہ وہ روایت بمقابلہ سیاست کے سوال پر سپریم کورٹ میں کیا بیان دیں گے؟ سپریم کورٹ نے کوئی مدت کا تعین نہیں کیا ہے جس میں 1991 کے قانون کے بارے میں حکومت اپنا نقطہ نظر ظاہر کرسکتی ہے۔ جسٹس بوبڈے آئندہ ماہ وظیفہ پر سبکدوش ہو جائیں گے یعنی سپریم کورٹ کی دستوری بنچ جب اس معاملہ کی سماعت کرے گی وہ اس کے صدر نشین نہیں ہوں گے۔ سماعت کی جو رفتار ہے اس کے پیش نظر حکومت کو کافی وقت حاصل ہوگا جس میں وہ اپنے جواب کا تعین کرسکے گی۔ مثالی طور پر واضح فیصلہ 2024 کے اختتام تک برسر عام آجائے گا۔