کیا نریندر مودی اپنا اثر و رسوخ کھو رہے ہیں؟

   

ہیریش کھیر
بے شک وزیر اعظم کے مداح لاکھوں ہوں گے اور لاکھوں افراد غالباً ان کے مخالف بھی ہوں گے اس طرح جملہ تعداد چند لاکھ ہو جاتی ہے لیکن مداح اور مخالف ایک نکتہ پر متفق ہیں کہ امکانی طور پر ذولفقار علی بھٹو کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے نریندر مودی عظیم ترین سیاستداں ہیں جو 1947 سے اب تک جنوبی ایشیا میں پیدا ہوا ہے۔
جواہر لال نہرو ایک موثر شخص تھا جو اپنے دور میں اپنے خیالات کی ترثیل کرسکتا تھا۔ درحقیقت یہ بات 2014 میں آسان نہیں تھی۔ نریندر مودی نے ہندوستانی سیاست میں اونچے مقام پر قبضہ کرلیا ہے اور موسم سرما ہو یا گرما ہو یا برسات وہ اپنے عہدہ پر برقرار رہنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ لفاظی میں مودی اتنے ماہر ہیں کہ کوئی بھی اپوزیشن لیڈر اس میدان میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ہم جانتے ہیں کہ مثال کے طور پر راہول گاندھی عام جلسوں میں وقفہ وقفہ سے خطاب کرتے رہتے ہیں اور ان کے موضوعات سیاسی ہوتے ہیں۔ ان کی ہمشیرہ پرینکا ٹوئٹر پر اکثر پیغامات دیتی رہتی ہیں لیکن وہ کوئی سنجیدہ سیاستداں نہیں ہیں۔ کوئی بھی کانگریسی قائد کو شہ نشین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ممتا دیدی مغربی بنگال تک محدود ہیں اور کوئی بھی ہندی پٹی میں وزیر اعظم کے اثرات قبول کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔

لفاظی کا غلبہ غیر فطری ہوسکتا ہے لیکن لوگوں کو تجسس پیدا ہو جاتا ہے کہ وزیر اعظم عام جلسہ میں کیا کہیں گے اور کسان قائدین اپنی تقریر میں کونسا انکشاف کریں گے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ کسانوں کو اپوزیشن پارٹیاں گمراہ کررہی ہیں لیکن یہ برسر اقتدار پارٹی کی لفاظی بھی کہی جاسکتی ہے۔ کاشتکار مذاق اڑانے پر اتر آئے ہیں اور وہ اپنی تھالیاں بجاکر احتجاجی مظاہرہ کرچکے ہیں جبکہ ایک اتوار کو اپنی من کی بات میں وزیر اعظم پوری قوم کو کورونا وائرس وباء کے سلسلہ میں مشورہ دے چکے تھے کہ وہ ایک مخصوص وقت اپنی بالکونیوں میں تھالیاں بجائیں یا دیئے روشن کریں۔
2019 کے لوک سبھا انتخابات پاکستان کے علاقہ بالاکوٹ میں جارحیت اور مسلم دشمنی کے موضوعات پر ہوئے تھے۔ انتخابی کامیابی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کامیاب ہونے والے کو اپنے ناقدین کے خلاف جارحانہ لب و لہجہ اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہوگئی ہے۔ یہ اپنے مخالفین کی آوازوں کو کچل نہیں سکتا۔ حکمراں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی کارروائی کا جواز رکھتا ہو، انصاف کرتا ہو اور اس کی کارروائی شفاف ہو۔ اسے اپنے کاموں کے لئے قوم کے آگے جواب دہ بنایا جاسکے اور اس کا احتساب کیا جاسکے۔
آج تک بھی مرکزی وزراء کے نام یا منتخبہ ماہرین معاشیات کے نام منظر عام پر آئے اور نہ وزیر اعظم نے اپنی کارروائیوں کی وضاحت کی کہ وہ معقول تھیں یا اپنا جواز رکھتی تھیں۔ مثال کے طور پر اتوار کے دن نئے زرعی قوانین کے مسودہ پیش کئے گئے۔ یہ پارلیمانی طریقہ کار یا پروٹوکول کی خلاف ورزی میں نہیں کیا گیا تھا لیکن آخر ان مسودوں کے پیش کرنے میں عجلت کی وجہ ہے۔ اگر اٹل بہاری واجپائی زندہ ہوتے تو ممکن ہے کہ وہ ایسا لب و لہجہ استعمال نہ کرتے۔ وہ یقینا کہتے کہ ان سے نپٹنا ایک فن ہے جو ہر شخص کو نہیں آتا۔

مودی انتظامیہ آزمودہ غلط تکنیک استعمال کرتا ہے اور یہی ہماری پریشانی کی وجہ ہے کہ ان کی تکنیک اب تک کامیاب نہیں ہوسکی۔ احتجاجی کسانوں کو علیحدگی پسند یا فرقہ پرست قرار دینا عوام میں پھوٹ پیدا کرنے اور ان کا مذاق اڑانے کی کوشش اپنا کوئی جواز نہیں رکھتی۔ عظیم قائد مودی نے اب تک کوئی ایسی رتھ یاترا نہیں نکالی ہے جو انحطاط دور کرسکے۔ جمہوریت میں مخالفت پر مزاحمت ایک تاریخی حقیقت ہے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مٹھی بھر افراد یعنی اقلیت اکثریت کو اپنی بات کا قائل کرسکے لیکن ملک کی آبادی اسی تناسب میں ہے جو آزادی کے وقت تھی۔ اپنی خودی کی بلندی کے لئے انہیں مسلح ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ جلد یا بہ دیر وہ اپنے آپ کو مارشل لا کی صورتحال میں پائیں گے تاکہ اکثریت کے جوش و جذبہ اور عوام کی وزیر اعظم تائید کرسکیں۔ حکومت اپنے مخالفین سے جو حکومت سے اختلاف کرتے ہوئے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں بے رحمی سے نمٹتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ حکومت کے باغی ہیں، یا پھر بے قاعدہ نیم فوجی تنظیم کے ارکان ہیں۔ دوسری بات یہ کہ عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے اور اکثریت کے قوانین اور پالیسیوں کو درست قرار دیا جاتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ پارلیمنٹ اعتراضات کرنے والے افراد کو لائسنس دے کر ان کی زبانیں بند کردیتی ہے۔ حکومت کے تشہیری وسائل اپنے مخالفین کو راکشس قرار دینے کے لئے مختص کردیئے جاتے ہیں اور حکومت سے ناراضگی ناجائز قرار پاتی ہے۔
مودی نے بھی دیگر ڈکٹیٹرس کی طرح اپنا کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے بھی کہ حکومت مزدوروں کو معذور سمجھتی ہے۔ اس نے اپنا فیصلہ کن موقف اختیار کرلیا ہے۔ یہ ایک کارآمد انتخابی ناٹک ہے اور عوام کو اپنی انتخابی کامیابی کے لئے تقسیم کیا جاتا اور ان کی صف آرائی کی جاتی ہے جبکہ یو پی اے نے اپنی میعاد کے دوران ایسا کبھی نہیں کیا تھا۔ اپنی 7 سالہ میعاد کے دوران اس نے ہمیشہ مخالفت کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا تھا۔ یہاں تک کہ اگر سیاسی شعور رکھنے والا کوئی معمولی آدمی بھی تنقید کرتا تو اسے قبول کیا جاتا تھا۔
لیکن مودی نے ایک نئی روایت قائم کی ہے کہ حکومت معمولی سی بھی پسپائی اختیار نہیں کرے گی اگر ملک کی پوری آبادی بھی ان کے نظریہ کے مطابق نہ ہو تو طاقتور حکومت انہیں اپنے فیصلے سے سبکدوش ہونے کے لئے مجبور کردے گی لیکن اپنا موقف تبدیل نہیں کرے گی۔ ان کی تائید کرنے والے یا تعریف کرنے والے افراد ممکن ہے کہ مٹھی بھر ہوں لیکن ایک نیا ٹکنالوجی پر انحصار کرنے والے اشرافیہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ دفتر شاہی عزائم رکھتے ہیں اور کارپوریٹ اداروں کی طرح لالچی ہوتے ہیں۔ انہوں نے مودی کی تائید کرنا قبول کرلیا ہے۔ یہ اشرافیہ طبقہ جمہوریت مخالف رجحان رکھتا ہے اور اس کی کبھی تعریف کرتا ہوا نہیں دیکھا جاتا۔

اکثریت ہمیشہ دانشور ہوتی ہے۔ یہ تصور آج کل غلط ثابت ہوچکا ہے۔ نیا اشرافیہ طبقہ مودی کے تصورات کو درست قرار دیتا ہے۔ ایک طرف ٹکنالوجی پر انحصار کرنے والا اشرافیہ طبقہ کارپوریٹ اہم اور بڑی شخصیات کی تعریف حاصل کرتا ہے اور دوسری طرف معمولی افراد بھی ان کی تعریف کرنے لگتے ہیں۔ جمہوریت میں مذاکرات، تبادلہ خیال اور مفاہمت اہمیت رکھتی ہے لیکن مودی سیاستدانوں کو ان تمام اصولوں سے بالاتر قرار دیتے ہیں۔ کسانوں کا احتجاج انہیں الگ تھلگ کرنے کے بعد ہی ختم کیا جاسکے گا۔