اقلیتوں پر ھجومی تشدد کو فوری طور پر روکا جائے ! کیا 49 افرآد نے یہ خط لکھ کر کوئی جرم کیا؟۔۔۔رویش کمار۔۔۔۔

,

   

بھیما کورے گاوں تشدد کیس کے ایک ملزم گوتم نولکھا کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔ جسٹس ارون مشرا اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے شنوائی ہوئی۔ گوتم نولکھا کے وکیل ابھیشک منوسگھوی نے کہا کہ جنوری 2018ء میں جب ایف آئی آر درج ہوئی تھی تو اس میں گوتم نولکھا کا نام ایف آئی آر میں درج نہیں ہوا تھا۔اگست 2018ء سے عدالت نے انکی گرفتاری کو روک دیا مگر تب سے لے کر اب تک پولیس ان سے کسی طرح کی تفتیش نہیں کی ہے۔ گوتم نولکھا تشدد کے خلاف ہیں۔ وہ سی ہی آئی ماو نواز کے رکن نہیں ہیں، صرف ضبط کئے گئے کچھ کاغذات کے بنا پر انکے خلاف کاروائی کی گئی ہے۔

سنکھوی نے عدالت میں درخواست کی کہ گوتم نولکھا کو دی گئی ضمانت کی مدت میں اضافہ کیا جائے۔ اس پر عدالت نے حکم دیا کہ جب تک اس معاملہ کی سماعت جا ری ہے انہیں گرفتار نہ کیا جائے۔جسٹس ارون مشرا نے کہا کہ ضمانت کی منظوری اور ایف آئی آر کی منسوخی دونوں الگ الگ معاملے ہیں۔ جسٹس ارون مشرا نے یو اے پی اے کی دفعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم تنظیم کاممبر ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسی تنظیم کو مدد فراہم کرتا ہے تو وہ یو اے پی اے کے تحت مجرم ہو سکتا ہے۔ مہاراشٹرا حکومت نے گوتم نولکھا کی درخواست کی مخالفت کی ہے۔ ریاستی حکومت کے وکیل نے کہا کہ نولکھا کے خلاف کافی ثبوت موجود ہیں اس پر جسٹس مشرا نے کہا کہ جو ثبوت ملے ہیں اسے عدالت کے سامنے پیش کرنا ہے اس معاملہ میں آئندہ سماعت 15اکتوبر کو ہوگی۔

ہجومی تشدد(ماب لنچنگ) کے بارے میں سپریم کورٹ کے ہی ایک تفصیلی فیصلہ کا تذکرہ ضروری ہے۔ 16جولائی 2018 کو سپریم کورٹ نے ھجومی تشدد کو روکنے کیلئے ضلعی سطح سے لے کر راجدھانی سطح تک پولیس کی جوابدہی طئ کی تھی ، اس کے ساتھ ہی عدالت نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو ریڈیو، ٹی وی اور سرکاری ویب سائٹس کے ذریعے عوام تک یہ پیغام پہونچا دینا چاہیے کہ ھجومی تشدد کی سزا بہت سخت ہے شوشل میڈیا پر ھجوم کو فروغ دینے والی جو سائٹس ہیں انہیں بند کردینا چاہئے اور جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں انکے خلاف ایف آئی ار درج کرنا چاہیے۔

سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے ہجومی تشدد کو روکنے کیلئے ریڈیو، ٹی وی اور اور اخبارات کے ذریعے کس طرح عوام کو با خبر کیاہے۔ کیا آپ نے کوئی ایسی مہم یا اشتہار دیکھا ہے؟ اب تک اس تناظر میں 49 افراد نے خط لکھا تھا۔ خط لکھنے والوں نے اپنے اپ کو امن کا حامی قرار دیتے ہوئے اپیل کی تھی کہ مسلمانوں اور دلتوں یا دیگر اقلیتوں پر ظلم کو روکا جائے۔

 آب آپ ہی بتایے کیا ان لوگوں نے 49 نے خط لکھ کر کوئی جرم کیا؟ شاید ھجومی تشدد کے حامیوں کے نزدیک یہ جرم ہے، یہی وجہ ہے کہ ان امن پسند دانشوروں اور ملک کے ممتاز شخصیات کے خلاف ایف ائی ار درج کیا گیا ہے۔ ان لوگوں پر قوم پرستی، مذہبی عقیدہ کو بڑھانے اور امن کو خراب کرنے کے الزام عائد کئے گئے ہیں، کیا ملک کے امن و امان کے خاطر اور ہجومی تشدد کو روکنے کےلیے وزیر اعظم سے اپیل کرتے ہوئے خط لکھنا قوم پرستی یا مذہبی عقیدہ کے خلاف ہے؟

واضح رہے کہ خط لکھنے والے افراد عام نہیں بلکہ ملک کی ممتاز دانشور شخصیات ہیں۔ جس میں کئی دادا صاحب پھالکے جیسے ایوارڈ یافتہ ہیں۔ ان میں سے کچھ کی عمریں 80سال سے زائد ہیں جیسے شیام بینگل جن کی عمر 84 سال ہے۔ یہ وہ شیام بینگل ہیں جنہوں نے آئین کے متعلق راجیہ سبھا کی زبردست قسطیں تیار کیں۔ شیام بینگل کو 2005 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے نوازا گیاگیا تھا۔

(سیاست نیوز)

دیکھیں ویڈیو

YouTube video