کیرالا پنچایت انتخابی نتائج

   

Ferty9 Clinic

کہتے ہیں ہم کو ہوش نہیں اضطراب میں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب میں
کیرالا میں پنچایت انتخابات کے نتائج سامنے آگئے ہیں۔ چھ میونسپل کارپورریشنوں میں کانگریس نے چار پر کامیابی درج کروائی ہے جبکہ 14 ضلع پنچایتوں میں بھی کانگریس پارٹی آگے ہے جبکہ برسر اقتدار لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کو چھ اضلاع میں کامیابی کے اشارے ملے ہیں ۔ ان انتخابی نتائج میں ایک حیرت انگیز پہلو دیکھنے میں آیا ہے کہ داالحکومت تھرواننتا پورم میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کے 50 حلقوں سے بی جے پی کو کامیابی ملی ہے جبکہ کارپوریشن 101 حلقوں پر مشتمل ہے ۔ بی جے پی کیلئے یہاں پہلی مرتبہ اتنی بڑی کامیابی ملی ہے ۔ یہ نتائج ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب آئندہ سال کیرالا میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ کانگیرس پارٹی کیرالا میں اقتدار پر واپسی کیلئے سرگرم ہو رہی ہے تو بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ اپنے اقتدار کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے تو بی جے پی کا تاحال کیرالا اسمبلی میں صرف ایک رکن اسمبلی رہا ہے اورر بی جے پی کو بھی یہ احساس ہے کہ وہ ریاست میں اقتدار حاصل نہیں کر پائے گی ۔ وہ کیرالا کی سیاست میں اپنے وجود کا احساس دلانے کی جدوجہد کرے گی ۔ انتہائی شدت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے بی جے پی کسی کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کی کوشش کرسکتی ہے تاہم خود اسے اقتدار حاصل نہیں ہوسکتا ۔ جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کی کانگریس اور کمیونسٹ جماعتوں دونوں ہی کیلئے بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ کانگریس پارٹی کیلئے کیرالا کا اسمبلی انتخاب جیتنا اہمیت کا حامل ہے ۔ لگاتار اسمبلی انتخابات کی شکستوں سے کانگریس کے حوصلے ایک بار پھر پست ہونے لگے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں قدرے بہتر کارکردگی سے پارٹی کی صفوں میں کچھ جوش و ولولہ دیکھنے کو ملا تھا تاہم کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں ناقص کارکردگی سے اس کے حوصلے پست ہونے لگے ہیں۔ پارٹی کے کچھ قائدین مایوسی کا شکار ہونے لگے ہیں۔ ایسے میں کیرالا میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اگر پارٹی کامیابی حاصل کرتی ہے تو یہ اس کیلئے حوصلے بلند کرنے والی جیت ہوسکتی ہے ۔
اب جو پنچایت انتخابات کے نتائج سامنے آئے ہیں ان کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ریاست کے عوام میں حکومت کے تعلق سے ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ عوام اب کمیونسٹ حکومت سے بیزار ہونے لگے ہیں۔ ایسے میں اس بات کے اندیشے بھی لاحق ہیں کہ بی جے پی اس صورتحال کا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ اس کیلئے ششی تھرور کی شکل میں ایک امکان ضرور موجود ہے حالانکہ تھرور اب بھی کانگریس میں بنے ہوئے ہیں ۔ تاہم یہ ششی تھرور کی بی جے پی سے بالواسطہ قربتوں کا نتیجہ ہی ہوسکتا ہے کہ تھرواننتاپورم کی بلدیہ میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوئی ہے ۔ حالانکہ ریاست گیر سطح پر بی جے پی کوئی خاص مظاہرہ نہیں کر پائی ہے تاہم پارٹی مختلف ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے صورتحال کا استحصال کرسکتی ہے ۔ کانگریس پارٹی کا جہاں تک سوال ہے تو اسے ابھی سے حالات پر گرفت بنانے کی سرگرمیاں تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔ ششی تھرور کا عنصر پارٹی کو ذہن میں رکھتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ جن اضلاع میں پنچایت انتخابات میں کانگریس نے سبقت حاصل کی ہے وہاں عوامی خدمات کا سلسلہ فوری شروع کیا جانا چاہئے ۔ عوام میں خیرسگالی کے جذبات کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کی جانی چاہئے اور جن اضلاع میں پارٹی کو توقع کے مطابق کامیابی نہیں مل پائی ہے وہاں پارٹی کو عوام سے رابطے بڑھانے چاہئیں اور ان کی تائید حاصل کرنے کے منصوبوں کو قطعیت دی جانی چاہئے ۔
کچھ گوشوں سے تھرواننتا پورم بلدیہ میں بی جے پی کی کامیابی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ دیگر اضلاع میں بی جے پی کا وجود اب بھی محض برائے نام ہے ۔ تاہم کانگریس پارٹی کو چوکسی برتنے کی ضرورت ہے ۔ اسمبلی انتخابات کے وقت تک اس اثر کو کم کرنے کیلئے بھی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے ۔ کانگریس کے سیاسی مستقبل کو مستحکم کرنے اور پارٹی کی صفوں میں جوش و جذبہ کو برقرار رکھنے کیلئے کیرالا اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی بہت اہمیت اور معنی رکھتی ہے ۔ اسی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پارٹی کو ابھی سے اپنی حکمت عملی بنانے کی تیاری کرنی چاہئے ۔
دہلی کی فضائی آلودگی کا مسئلہ
قومی دارالحکومت دہلی میںفضائی آلودگی کا مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ حکومتوں کا جہاں تک سوال ہے تو صرف وقتی اور دکھاوے کے اقدامات کرتے ہوئے مسئلہ کو ٹالا جا رہا ہے اور اس کی دیرپا اور مکمل یکسوئی پر کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ حکومت دہلی ہو یا مرکزی حکومت ہو دونوں ہی کو اس معاملے میں پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔ دونوںہی حکومتیں بی جے پی کی ہیں تو کسی رکاوٹ کا بھی سوال پیدا نہیں ہوسکتا ۔ لگاتار آلودہ فضاء کی وجہ سے عوام کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہونے کے اندیشے ہیں اور حکومتوں پر اس کا کوئی خاص اثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ صرف وقتی طور پر کچھ اقدامات کرتے ہوئے واہ واہی بٹوری جا رہی ہے اور عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جا رہا ہے ۔ لگاتار یہ مسئلہ سرخیوں میں ہے تو مرکزی اور دہلی کی دونوں ہی حکومتوںکواس معاملے میں فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے تاکہ اس مسئلہ کی یکسوئی کرتے ہوئے عوامی صحت کو بچایا جاسکے ۔