زندگی کا اگر شعور ملے
زندگی خود ہے چشمٔہ حیواں
کیرالا کے رائے دہندے
ملک میں ہندوتوا طاقتوں کے غلبہ اور اپوزیشن کے کمزور پڑنے کے بعد پانچ ریاستوں میں چل رہے اسمبلی انتخابات ہندوستانی سیاست کے لئے ایک اہم موڑثابت ہوں گے۔ کیرالا ایک ایسی ریاست ہے جہاں ہندوتوا کا غلبہ حاصل کرنے کی کوششیں کرنے والی بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیمیں اس مرتبہ ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں ۔ کیرالا میں بائیں بازو پارٹی کی دوستانہ اور عوام موافق پالیسیاں جہاں فرقہ پرستوں کی دال گلنے نہیں دے گی۔ دیگر پارٹیوں کی موجودگی بھی برائے نام ہے۔ ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابل کیرالا کی اپنی ایک سیاست ہے یہاں ہندو، عیسائی اور مسلم طبقات طویل عرصہ سے مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ پُرامن طریقہ سے ایک دوسرے کے ساتھ باہم مل کر عید و تہوار مناتے ہیں۔ کیرالا میں اب تک کوئی بڑا فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا ہے۔ صرف1971-72 میں کیرالا کے تھیسرے میں فساد ہوا تھا۔ کیرالاکو جنوبی ہند کی ایک مکمل خواندہ راست کا درجہ حاصل ہے۔ یہاں 18 فیصد عیسائی، 27 فیصد مسلم اور 54 فیصد ہندو ہیں۔ کیرالا کی مذہبی اقلیتیں بھی مستحکم ہیں اور اپنے اپنے علاقوں میں غلبہ رکھتی ہیں، انہیں منتشر کرنا یا انہیں بہلا پھسلا کر نفرت کی آگ لگانے کے لئے استعمال کرنا ممکن نہیں ہے۔ پھر بھی فرقہ پرستوں نے کیرالا کی پُرامن فضاء کو مکدر کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں اب تک کامیابی نہیں ملی۔ اس مرتبہ بھی اسمبلی انتخابات کے موقع پر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن حکومت کی مشنری مضبوط ہونے اور عوام میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہونے سے فرقہ پرست طاقتیں اپنے منصوبوں میں ناکام ہورہی ہیں۔ یہاں انڈین مسلم لیگ کا اچھا اثر ہے۔ یہ جماعت اپنے سیاسی تجربہ کی بنیاد پر کیرالا کی موجودہ سیاست میں خود کو مضبوط و مستحکم رکھنے میں کامیاب ہے۔ مسلم لیگ کے سرکردہ قائدین جیسے سی ایچ محمد کویا نے چیف منسٹر کیرالا کی حیثیت سے بہترین خدمت انجام دی تھی۔ انڈین یونین مسلم لیگ کانگریس زیر قیادت یو ڈی ایف اتحاد میں ایک اہم حلیف پارٹی ہے جو 27 نشستوں پر مقابلہ کررہی ہے، اس نے 25 سال میں پہلی مرتبہ خاتون امیدوار کو ٹکٹ دیا ۔ نوربینہ رشید کوزی کوڈ جنوبی حلقہ سے امیدوار ہیں یہاں اس وقت کٹر پسند ہندوتوا کا ٹولہ امن میں خلل پیدا کرنے کی ہر طرح کوشش کررہا ہے اورکیرالا کے ہندو نوجوان ذہن کو سی اے اے، این آر سی جیسے مسئلہ پر بھڑکانے کی کوشش کررہا ہے۔ کیرالا کے عوام سیکولر مزاج اور متوازن سوچ رکھتے ہیں۔ اس لئے یہاں کسی کٹر پسند انتہاء پسند یا شدت پسند سیاست یا تنظیموں کا اثر دکھائی نہیں د یتا۔ کیرالا میں چونکہ خواندگی کی شرح صدفیصد ہے اس لئے مسلم طبقہ میں بھی خواندگی صدفیصد ہونے سے مسلم رائے دہندے باشعور ہیں۔ کئی نوجوان رائے دہندوں کا احساس ہیکہ مذہب کو سیاست سے جوڑنے کی کوشش کرنے والوں کو وہ ہرگز پسند نہیں کرتے۔ اس لئے صرف سیکولر لیڈروں کو منتخب کرنا ان کا قطعی فیصلہ ہوتا ہے۔ کیرالا میں سیکولر لیڈر ہی عوام کا پسندیدہ امیدوار ہوتا ہے۔ یہاں کے مسلمان بھی سرکاری نظم و نسق یا تجارت میں ہندؤں کے ساتھ یکساں حصہ رکھتے ہیں۔ امتیازی سلوک کی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوتی۔ بائیں بازو نظریات بھی کیرالا کی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ چیف منسٹر پنیرائی وجین اپنی سیکولر مزاجی اور دوراندیشی کے لئے مقبولیت رکھتے ہیں۔ تاہم اس وقت کیرالا کو فرقہ وارانہ ماحول سے آلودہ کرنے والی طاقتیں سرگرم ہیں۔ اس لئے کیرالا کے سیکولر عوام کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ کیرالا کو برسوں تک نہرو گاندھی کی مقبولیت و حمایت والی ریاست سمجھا جاتا تھا۔ ایمرجنسی کے بعد بھی کانگریس نے کیرالا میں کامیابی حاصل کی تھی۔ آج کانگریس گروہ واریت کا شکار ہوکر کمزور ہوئی ہے۔ راہول گاندھی نے کانگریس کی ماضی کی شان کو بحال کرنے کیلئے کیرالا کا کئی مرتبہ دورہ کیا۔ اب دیکھنا یہ ہیکہ یہاں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے حق میں کتنے ووٹ آئیں گے۔کیرالا کے نوجوان طبقہ میں راہول گاندھی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے تو کانگریس کو اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
