کیوں گاندھی ، جناح سے سیاسی مناظرہ ہار گئے ؟

   

از امیت مجمدار
ترجمہ : ڈاکٹر محی الدین حبیبی
جیسے ہی ماہِ جنوری اپنے اختتام کی جانب بڑھتا ہے ، گاندھی جی کے قتل کی واردات یاد آتی ہے۔ (اس قاتل کو ملال بھی نہ تھا ایک وحشیانہ عمل کے ذریعہ اپنی دہشت کا مظاہرہ کیا۔ خوشا! اب تو اس نفرت کے سوداگر پر ڈاکیومنٹری بھی بنانے کی خبریں آرہی ہیں …مترجم) ۔ اس کے علاوہ یہ شعر بھی بہت موزوں لگتا ہے کہ مہاتماکی آتما کہہ رہی ہے کہ
لاؤ تو قتل نامہ ذرا مَیں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی
(مترجم)
اب تو کئی یادگاری جلسہ ہوں گے جس میں یہ کہا جائے گا کہ ایک جنونی نے کس طرح یک عظیم قائد جو صبر و شکیب ، مساوات ، ہمہ مذہبی ، معاشرہ اور مساوی حقوق والے متحدہ ہندوستان کی بات کیا کرتا تھا، اس کا دھوکہ سے قتل کردیا ۔گاندھی جی کے پیش نظر ایک ایسا ہندوستان تھا جس میں ذات پات اور مذاہب کی اکائیاں، ایک قومی شناخت کا حصہ بن جائیں۔ انہوں نے ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا جس میں دہلی، کراچی اور ڈھاکہ سب کچھ سما سکیں، لیکن 1947ء کی جغرافیائی تقسیم کا کوئی بھی طالب علم ، گاندھی کے اس منصوبہ کو ایک کامیاب نظریہ نہیں سمجھتا تھا۔
برطانوی راج کے اخراج سے دو نوعیت کے نظریے ابھر آئے جو ایک عظیم ہندوستان کے جغرافیائی نقشہ کو بدلنے کیلئے محرک ثابت ہوئے۔ اگر گاندھی جی کے نظریہ کی طرف دیکھا جائے تو وہ ایک متحدہ ہندوستان کے حامی نظر آتے ہیں جبکہ محمد علی جناح مسلم اکثریت کے تمام علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ ریاست کے آرزومند تھے اور مشرقی و مغربی ہندوستان دونوں صوبوں کے اتحاد سے ایک نئی مملکت اسلامیہ کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر گاندھی جی چاہتے تو اپنی پرکشش قیادت کے وسیلہ سے تمام ہندوؤں کو اُکسا سکتے تھے کہ وہ ایک متحدہ ہندوستان چاہتے ہیں جس طرح جناح نے اپنے نظریہ کو حقیقت کا روپ دیا حالانکہ ہندوؤں کی تعداد کہیں زیادہ تھی، وہ چاہتے تو ایسا اقدام کرسکتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ گاندھی نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہندو ایک سیاسی اکائی ہے جو مختلف النوع گروہ بندیوں کی عکاسی نہیں کرتا اور یہ ابتدائی بیسوی صدی کی ایک حقیقت رہی ہے۔ اس کے برخلاف آج بی جے پی ایک ہندو جماعت کی حیثیت سے اپنی شناخت منواتی ہے لیکن جنوبی ہند کے ہندو اکثریت رکھنے والی ریاستیں یا پھر بی جے پی سے اتحاد رکھنے والوں کو ہمیشہ اسمبلی انتخابات میں مسترد کرتے چلے آرہے ہیں۔ آج بھی تمام ہندوؤں کو متحد کرنا بہت مشکل بات ہے ۔ سوچئے! آج سے 75 سال پہلے کس طرح ذات پات، زبانوں اور علاقائی ثقافت کو متحد کیا گیا ہوگا کہ ان گروہوں کے تنازعات کچھ زیادہ ہی مستحکم تھے۔ ہندو مہا سبھا اور ساورکر نے اس طرح کے سیاسی اتحاد کا خواب دیکھا تھا جو ایک سراب یا دھوکہ ثابت ہوا۔ اسی طرح متحدہ عالم عرب یا متحدہ آفریقی ممالک کا تصور بھی عملی جامہ نہ پہن سکا۔ افسوس کہ گاندھیائی فلسفہ کو عمداً ایک قسم کی بے شعوری ، غلط فہمی اور بے عملی کا ایک ناقابل عمل نظریہ سمجھ لیا گیا۔
گاندھی نے عالمی سطح پر اہنسا کی تحریک کو فروغ دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہودیوں کو بھی مشورہ دیا کہ وہ ہٹلر کے خلاف اہنسا سے کام لیں۔ یہ سچ ہے کہ اہنسا (عدم تشدد) کا ذکر بھگوت گیتا میں ملتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کرشنا ایک افسردہ سپاہی کو تحریک دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ عزم سے کام لو اور تیر کمان اٹھاؤ اور نبردآزما ہوجاؤ۔ اگرچہ اہنسا کے تصور کو گاندھیائی نظریہ سے جوڑا جاتا ہے جو شاید جین مذہب سے متاثر ہوکر گاندھی نے اپنایا۔ گاندھی نے یسوع مسیح کے اس ارشاد کو بھی اہمیت دی کہ اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ رسید کرے تو اسے دوسرا بھی گال پیش کردیا جائے یعنی اپنے مخالفین کے ظلم و ستم کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ یوں گاندھی جی عالمی تاریخ کے وہ پہلے سیاسی قائد ہیں جنہوں نے اس عدم تشدد کے نظریہ کو فروغ دیا جبکہ اس قابل عمل نظریہ کو اجتہادی گروہوں، مہم جو افراد اور انگریز صاحب لوگوں نے بری طرح نظرانداز کیا اور طاقت (جبر و تشدد) کی فصل کاٹنے لگے۔ گاندھی جی کی بنیادی ناکامی اس معتبر نظریہ کے باعث ہی ہوئی۔ یہ ایک ایسا تصور تھا جس کے باعث انہیں دیگر ہندوستانی سیاست دانوں سے ممتاز کرتا ہے۔ گاندھی کے سب سے بڑے دشمن نہ جناح تھے اور نہ ہی برطانوی سامراج۔ یہ ایک انسانی نفسیات کی پرتشدد ضعیف البصارت کیفیت تھی جس کو شکست دینا ناممکن تھا۔ مسلم لیگ کی علیحدگی پسندی اور برطانوی استعماریت دونوں نے اپنے اپنے اہداف حاصل کرنے کے خواہشمند تھے۔ برطانوی سامراج صورتحال سے فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا جبکہ مسلم لیگ کی توجہ ایک علیحدہ ملک کی تحصیل پر مرکوز تھی۔
داخلی خلفشار کے باعث منقسم ہندوستانیوں نے ایک طرف اپنے خزانے برطانیہ کے حوالے کردیئے تو دوسری جانب ملک کے ایک حصہ کو مسلم لیگ کے حوالے کردیا۔
گاندھی کے کٹر حریف چرچل اور ٹوریز پارٹی نے پاکستانی تحریک کا ساتھ دیا چنانچہ ڈسمبر 1948ء میں چرچل نے اپنے اثرات کا استعمال کرتے ہوئے محمد علی جناح کی ملاقات شاہ اور ملکہ برطانیہ سے طئے کروائی۔ اگرچہ چرچل اس وقت عارضی طور پر اقتدار میں نہیں تھے، یہ وہی چرچل ہیں جنہوں نے کینیڈا اور آسٹریلیا سے 1943ء میں درآمد کردہ اناج کو بنگال کے قحط زدہ علاقوں کو فراہم کرنے کے بجائے اپنے یوروپین اتحادیوں کو روانہ کردیا تھا۔ اسی طرح محمد علی جناح اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بامراد رہے اور مسلمانوں کو اپنی قیادت سے فائدہ پہنچایا جبکہ گاندھی جی اس بات پر ڈٹے رہے کہ وہ اپنے بلند ترین انسانی مساوات و ہمہ مذہبی یکجہتی کے تئیں مختلف النوع سماجی و مذہبی اکائیوں جیسے قبائیلی بہبود، ذات پات کا خاتمہ اور مساویانہ حقوق کا فروغ وغیرہ پر قائم رہے تاکہ ہر گروہ کی شناخت قائم رہے (اور ہندوستانی کہلائے) گاندھی جی صدیوں قدیم سماجی و مذہبی اقدار سے بلند ہوکر ایک مضبوط وحدت والا ہندوستان چاہتے تھے۔ وہ مختلف گروہی تنازعات میں ملوث لوگوں کو ایک مقصد کے تحت ایک وحدت کی اکائی بنانے چاہتے تھے جو سیاسی نظام میں انتہائی مشکل چیز سمجھی جاتی ہے جبکہ محمد علی جناح نے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے خلاف متحرک کیا اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں سے یوں رجوع ہوئے کہ گاندھی ایک ہندو سیاست داں ہیں اور ہندوستانی قومی کانگریس ہندوؤں کی سیاسی جماعت ہے۔
جناح کی یہ حکمت عملی دراصل انسانی نفسیات کی ایک قبیلہ پرور ذہنیت کی عکاسی کرتی تھی جو اپنا کام بڑی خوبی کے ساتھ کرگئی۔ اپنے ابتدائی سفر میں جناح نے مسلم لیگ اور انڈین کانگریس کے ہمدوش کام کیا لیکن وہ صرف چند قدم ہی ساتھ چل سکے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمان 1937ء کے اواخر تک بھی قانون ساز اسمبلیوں کیلئے کانگریس ہی کو ووٹ دیا کرتے تھے، لیکن 10 سال کے اندر ہی جناح نے ہواؤں کے رخ کو موڑ دیا اور مسلمانوں کو ایک واحد سیاسی اکائی میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور دھمکیوں کا بھی رویہ اپنایا۔ ان کے دھمکی آمیز رویے نے برطانوی سامراج سے ایک طویل مذہبی جنگ کے خدشہ کو محسوس کیا اور حکومت برطانیہ پر تقسیم کیلئے دباؤ میں زبردست زیادتی دیکھی جانے لگی۔ ہم جانتے ہیں کہ تقسیم ہند کے وقت 1947ء میں کتنے خونریز فسادات ، فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں ایسے کتنے فسادات کو روکا گیا۔ جناح نے انسانی فطرت کی روش کا خوب فائدہ اُٹھایا اور اپنے نشانِ پاکستان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جبکہ گاندھی جی کا تصوراتی ہندوستان بادِ مخالف کے پیدا کردہ تلاطم سے لب ساحل تک پہنچنے میں ناکام رہا۔ ہم کو یہ ماننے میں تعجب یا تامل نہ ہونا چاہئے کہ گاندھی جی یہ سیاسی لڑائی ہارچکے تھے۔
ایک سحر انگیز یا دلفریب شخصیت شاید اپنے سیاسی حریف کو یا کسی عالمی سلطنت کی مخالفت کرنے میں کامیاب ہوجائے لیکن انسانی فطرت کو کوئی بھی تبدیل نہیں کرسکتا۔ ہاں! ایک مہا آتما بھی نہیں۔
*فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے

  • مترجم کا موزونیت کے اعتبار سے اضافہ)
    نوٹ : امیت مجمدار ‘The Map & the Scissors’ نامی مشہور کتاب کے مصنف ہیں۔ مترجم کا مقالہ نگار کے خیالات سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔