کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں

   

خالد محمود صدیقی قادری
حضور اکرم ؐ سے محبت عین ایمان ہے، مسلمان کیلئے لازمی ہے کہ وہ سرکار دو جہاں ؐ سے محبت اور وابستگی قائم رکھے اور اپنے عمل و کردار سے اس محبت اور وارفتگی کا ثبوت دیتا رہے۔حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور اکرم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ قیامت کب ہوگی، اللہ کے رسولؐ نے استفسار کیا کہ تم نے قیامت کے لئے کیا تیار کررکھا ہے، اُس نے جواب دیا اللہ اور اس کے رسول ؐ کی محبت ۔ حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا بے شک تو اُسی کے ساتھ ہے جس کے ساتھ تم نے محبت کی ہے۔ ایک اور شخص بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوا، اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ بلا شبہ آپ مجھے میری جان، اولاد اور مال سے زیادہ عزیز ہیں۔ جب بھی مجھے آپ کی یاد آتی ہے مجھے اُس وقت تک چین نصیب نہیں ہوتا جب تک کہ آپ کا دیدار نہ کرلوں۔ اگر موت کے بعد میں جنت میں داخل بھی ہوگیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کا دیدار نہ کر پاؤں گا۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ جبرئیل ؑ مندرجہ ذیل آیت کے ساتھ تشریف لانے پر آپ نے اس کا جواب نہیں دیا: اور جو کوئی اللہ تعالیٰ اور رسول ؐ کی فرمانبرداری کرے پس وہ اُن لوگوں کے ساتھ جنت میں ہونگے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے۔ جن میں انبیاء و شھداء اور صالحین شامل ہیں۔( سورۃ النساء ۷۸ )
اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا واحد عمل حضور اکرمؐ سے محبت، اتباع اور آپؐ کی تعظیم ہے۔ اس حقیقت سے چشم پوشی ممکن نہیں کہ عشق رسولؐ ہی حقیقی زندگی ہے۔ مسلمان کیلئے سرکارؐ کی محبت دنیا کی سب سے بڑی نعمت، سب سے بڑا اعزاز اور دین و دنیا کی سرفرازی کا موجب ہے جس نے اپنے سرکارؐ سے وفا کی اور اُن کے ہوکر رہے، اللہ تعالیٰ نے بھی اُسے عزیز تر اور اپنا محبوب بندہ بنالیا ۔ ’’ جو تیرا ہے وہ ہمارا ہے ‘‘حضور اکرم ؐ سے محبت اور اُس کی حقیقت کے بارے میں علماء کرام نے مختلف انداز ہائے فکر اختیار کئے ہیں، بعض نے کہا کہ رسولؐ کی اتباع کا نام محبت ہے، اور چند علماء کا خیال ہے کہ ذکر محبوب ہی دراصل حُب نبیؐ ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہی عمل اختیار کریں جو محبوب کو پسند ہے اور اُس عمل سے گریز کرے جو اُنھیں ناپسند رہا ہے۔ حقیقت محبت دراصل یہ ہے کہ دل اُس طرف مائل ہو اور محبوب کے خیال اور اِدراک سے روحانی کیفیت اور قلبی سکون حاصل ہو۔ دنیا میں صرف سرکار دو جہاں کی ذات گرامی ہی ان تمام صفات و کیفیات کا پیکر ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی شخصیت آج تک پیدا ہوئی اور نہ پیدا ہوگی جو حُسن و جمال، حُسن اخلاق اور بندگان الٰہی پر غیر معمولی احسان و اکرام اور شفقت و رحمت کا مظہر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ساری دنیا کیلئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْـمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ o
اللہ تعالیٰ حضور اکرم ؐ سے محبت اور عشق کو اپنی رضا اور خوشنودی کا سرچشمہ قرار دیا ہے ، وہ ہوائیں جو بدست ادب ومحبت گنبد خضریٰ کو بوسہ دے کر گذرتی ہیں ان میں سرکار دو جہاں کی محبت کی ایسی خوشبو سَمو جاتی ہے جس کی مَہک تا قیامت برقرار رہے گی، اور وہ جس کو بھی چُھو لیتی ہے وہ سرور کونینؐ کا مستانہ و دیوانہ بن جاتا ہے۔ حضوراکرم ؐ محسن انسانیت کی محبت و عقیدت کے حقیقی جلوہ صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں نمایاں رہے ہیں۔ حضور اکرم ؐ نے اپنی حیات مقدسہ میں گمراہ انسانیت کو ہدایت کا راستہ دیا۔ سینکڑوں بُتوں کے آگے سربسجود انسانوں کو خدائے واحد کے آگے سجدہ ریز ہونے کی تعلیم دی۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلام کے روحانی پیغام کے ذریعہ ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ حضور اکرم ؐ سے محبت پر علماء کرام اور بزرگان دین نے کافی زور دیا ہے جس کا مقصد یہی ہے کہ جب تک محبت نہ ہو اُس وقت تک عمل میں کیفیت اور جوش و جذبہ پیدا نہیں ہوگا۔ یہ انسانی فطرت کے عین مطابق بھی ہے۔
اِسی طرح نبی کریمؐ کی محبت دلوں میں جاں گزین کرنے کا مقصد اللہ سے لگاؤ پیدا کرنا اور حضورؐ کی ہرہدایت کو حکم سمجھ کر اختیار کرنا مومن کی شان ہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے ’’اگر تم واقعی اللہ سے محبت کرتے ہو سرکاردوجہاں کی پیروی کرو، اگر تم نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائیں بخش دے گا وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ ‘‘۔
عصر حاضر میں جب کہ لوگ کم علمی اور جہالت کے نتیجہ میں دین سے دور ہوتے جارہے ہیں اُن کے لئے ضروری ہے کہ وہ سیرت مصطفی کا مطالعہ کریں اور حضورؐ کے پیغام کو نہ صرف سمجھیں بلکہ بھٹکی ہوئی گمراہ انسانیت تک اس پیغام کو پہنچائیں۔اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حضور اکرمؐ سے بڑھ کر دنیا میں کوئی بھی شخص توحید کو سمجھ نہ سکا۔ آپؐ سب سے بڑے موحد ہیں ، مکہ مکرمہ میں آپؐ نے جو پیام لوگوں تک پہنچایا اور اس بات کو واضح طور پر پیش کیا کہ اس دنیا کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ اس حقیقت کے تناظر میں اگر ہم غور کریں تو عرفانِ الٰہی کے ساتھ ساتھ عرفانِ محمدیؐ کی حقیقت اُجاگر ہوگی۔
چنانچہ علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا کہ ؎
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن ، وہی فرقان، وہی یسین ، وہی طہٰ
حضور اکرمؐ کی ولادت کے موقع پر مسلمان اگر عید میلاد مناتے ہیں تو اس کا مقصد کسی دوسری قوم کی پیروی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا شکر ادا کرنا ہے ۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ اپنے رب کی نعمتوں کا خوب چرچا کرو چنانچہ حضور اکرم کی دنیا میں تشریف آوری تمام نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہے اس لئے میلاد شریف پر غیر ضروری اعتراضات ہمارے ایمان کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا طریقہ کار نامناسب بھی ہوسکتا ہے لیکن میلادالنبیؐ کی خوشی غیر اسلامی یا شرک و بدعت سے منسوب کرنا بھی ہماری نادانی ہوگی۔ مختصر یہ کہ مومن کی زندگی احکام الٰہی کی پابند ہے اور یہ احکام الٰہی کا وسیلہ اللہ کے محبوب پیغمبر حضور اکرمؐ ہیں اور آپؐ کی اتباع ہی احکام الٰہی کی پابندی ہے۔ اس لئے اگر عاشقان مصطفی عید میلاد مناتے ہیں تو یہ اُن کی محبت اور وارفتگی کا مظہر ہے۔ اس محبت اور عشق پر اعتراض نکتہ چینی اور بحث نامناسب عمل ہے۔ جشن ولادت رسول ﷺ کی خوشیاں جذبہ حمایت اور وارفتگی شوق کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور اکرمؐ کی محبت اور آپؐ کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین )بقول شاعر:
وہ سراپائے رحم، گنبد خضریٰ کے مکیں
اُن کی غلامی میں مرنے کی دعا مانگی ہے
…٭…

چنانچہ صحابہ کرامؓ کی زندگی اور اُن کا اُسوہ حسنہ ان ہی شرائط کی تکمیل کا آئینہ دار ہے۔ اللہ کے رسولؐ کی بزرگی و برتری کو تسلیم کرنا ہر اُمتی کا فریضہ ہے۔ اللہ کے بعد اگر کوئی بزرگ و برتر ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ آپؐ سے منسوب احادیث پر ایمان ہونا بھی ہرمومن کیلئے ناگزیر ہے۔ یہ بات بھی ہمارے عقیدہ کے عین مطابق ہے کہ سرکار دو جہاں روز قیامت ہماری شفاعت فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو کئی اختیارات سے سرفراز فرمایا ہے اور اپنی حیات کے دوران آپؐ نے اُن اہل دنیا کے سامنے پیش بھی فرمایا۔ جو ایمان والے ہیں اُن کے دلوں میں اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی محبت سب سے بڑھ کر ہے اور باقی جو بھی محبت وہ لوگوں سے کرتے ہیں وہ بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی کے لئے ہے۔ ان تمام حقائق کو جان لینے کے بعد ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حضور اکرمؐ کی ذات مبارکہ اور حیات طیبہ کا مطالعہ کرے اور اپنی زندگی کو حضور اکرمؐ کی ہدایت کے مطابق بنانے اور سنوارنے کی کوشش کرے۔