تلنگانہ کے آبی مفادات کو نقصان کیلئے بی آر ایس حکومت ذمہ دار، اسمبلی اجلاس میں آبپاشی پراجکٹس پر مباحث
حیدرآباد 23 ڈسمبر (سیاست نیوز) ڈپٹی چیف منسٹر بھٹی وکرامارکا نے الزام عائد کیاکہ بی آر ایس کے سربراہ اسمبلی میں قدم رکھنے سے خوفزدہ ہیں کیوں کہ اُنھیں 10 سالہ دور حکمرانی کی ناکامیوں اور بدعنوانیوں کے منظر عام پر آنے کا اندیشہ ہے۔ بھٹی وکرامارکا نے کھمم ضلع میں آج مختلف ترقیاتی اسکیمات کا آغاز کیا۔ اِس موقع پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کے سی آر کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ آبپاشی پراجکٹس اور آبی مسائل پر کے سی آر نے ریونت ریڈی حکومت پر تنقید کی حالانکہ حکومت نے ایک سے زائد مرتبہ کے سی آر کو اسمبلی میں مباحث کا سامنا کرنے کی دعوت دی ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ پارٹی کی ساکھ بچانے کے لئے کے سی آر کو میدان میں آنا پڑا، باوجود اس کے عوام اُن پر بھروسہ نہیں کریں گے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد کے سی آر 2 برس میں ایک مرتبہ بھی اسمبلی میں عوامی مسائل پر آواز نہیں اُٹھائی۔ بھٹی وکرامارکا نے کے سی آر کو چیلنج کیاکہ وہ اسمبلی میں آبی مسائل پر مباحث میں حصہ لیں تاکہ حقائق منظر عام پر آسکیں۔ اُنھوں نے کہاکہ بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کے سبب عوام نے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات میں بی آر ایس کو مسترد کردیا۔ بھٹی وکرامارکا نے کہاکہ ہر سال زرعی شعبہ کو مفت برقی سربراہی کے سلسلہ میں حکومت 12500 کروڑ برقی اداروں کو ادا کررہی ہے۔ حکومت نے انتخابی وعدوں پر عمل آوری کے علاوہ نئی فلاحی اسکیمات کا آغاز کیا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ حکومت مالی مشکلات کے باوجود ترقیاتی اور فلاحی اسکیمات پر عمل پیرا ہے اور ایک روپیہ بھی بیجا خرچ نہیں ہورہا ہے۔ حکومت نے مالیاتی ڈسپلن نافذ کرتے ہوئے اسکیمات پر عمل آوری کو یقینی بنایا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ کے سی آر، کے ٹی آر اور ہریش راؤ کی بوکھلاہٹ اُن کے بیانات سے ظاہر ہورہی ہے۔ گزشتہ 2 برسوں میں حکومت کی مقبولیت میں اضافہ کو برداشت نہ کرتے ہوئے الزام تراشی کا آغاز کیا گیا۔ اُنھوں نے کہاکہ اسمبلی کے سرمائی سیشن میں حکومت نے آبپاشی پراجکٹس اور آبی مسائل پر مباحث کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے گزشتہ 10 برسوں میں تلنگانہ کے آبی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے کے سی آر حکومت کی جانب سے کئے گئے معاہدات کو عوام میں پیش کیا جائے گا۔ اُنھوں نے کہاکہ 2 سال تک فارم ہاؤز میں آرام کرنے والے کے سی آر کو اچانک عوام کی فکر لاحق ہوچکی ہے۔ وہ دراصل پارٹی کے داخلی انتشار سے پریشان ہیں اور پارٹی کی ڈوبتی کشتی کو بچانا چاہتے ہیں۔1
