کے سی آر کا کارنامہ‘ حکومت کی تشکیل کو دوماہ ہوگئے ‘ اب تک کابینہ میں صرف دو لوگ

,

   

برسراقتدار سیاسی جماعت کے قائدین کو خود اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ کے سی آر کااگلا قدم کیاہوگا۔ ڈسمبر 11کے روز نتائج کااعلان آگیا‘ 119میں 88سیٹوں پر جیت حاصل کرتے ہوئے بھاری اکثریت سے دوبارہ اقتدار پر قبضہ جما لیا۔

حیدرآباد ۔قائدین کاماننا تھا کہ جنوری میں پونگال کے بعد یہ کام کیاجائے گا۔ پھر جنوری میں شروع ہوئی ان کی پانچ روزہ یگنا کے بعد توقع کی گئی۔ مگر تہواریں آتے او رجاتے رہے ‘ ٹھیک اسی طرح ’ ماہا رودرا سہتا سہسرا چندی یگنم بھی چلا گیا‘ اور تلنگانہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اپنی کابینہ میں توسیع نہیں کی ۔

دوبارہ اقتدار میںآنے کے د و ماہ بعد سے کے سی آر صرف ایک منسٹر کے ساتھ حکومت چلارہے ہیں اور وہ محمد محمودعلی کو بطور ہوم منسٹرمقرر کیاہے۔

برسراقتدار سیاسی جماعت کے قائدین کو خود اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ کے سی آر کااگلا قدم کیاہوگا۔

ڈسمبر 11کے روز نتائج کااعلان آگیا‘ 119میں 88سیٹوں پر جیت حاصل کرتے ہوئے بھاری اکثریت سے دوبارہ اقتدار پر قبضہ جما لیا۔

دودنوں بعد 66سالہ محمود علی نے ہمراہ انہوں نے حلف لیا جو کہ ایک رکن قانون ساز کونسل اور سابق کی حکومت میں وزیرمال تھے۔ چیف منسٹر کے بشمول تلنگانہ میں119سیٹوں کے ایوان میں پندرہ فیصد کی مناسبت سے اٹھارہ منسٹر س ہیں۔

اس وقت ریاست میں کوئی کابینہ موجود نہیں ہے ‘ اور کے سی آر اپنا کام جائزہ اجلاس کے ذریعہ چلارہے ہیں جس اب تک درجنوں ہوگئی ہے ۔

کے سی آر کے دفتر اور گھر یعنی پرگتی بھون میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں تمام محکوں کی فائیلوں پر دستخط وہ خود کررہے ہیں اور تمام محکموں کے عہدیداروں کو موجود رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

ان میں سے کچھ اجلاس میں محمودعلی بھی موجود رہے جو ہوم اور محکمہ پولیس کی تھیں۔ایک سابق منسٹر نے کہاکہ چیف منسٹر کی کوشش ہے کہ تمام محکموں کو ایک صف میں لائیں ۔ چیف منسٹر چاہتے ہیں کہ تمام متعلقہ محکمے ایک وزرات میں تحت رہیں اور اس کا انچارج منسٹر بھی ایک ہی رہے‘‘۔

ٹی آر ایس ترجمان عابد رسول خان نے اس با ت کا خلاصہ کیاکہ’’ یہاں پر ساٹھ محکمے ہیں اور تلنگانہ کے پاس 17منسٹر جس میں ایک چیف منسٹر بھی ہے۔ ائی اے ایس افیسروں پر مشتمل ایک کمیٹی تمام متعلقہ محکموں کو ایک وزرات کے تحت لانے کے لئے کام کررہے ہیں۔ جب یہ کام مکمل کرلیاجائے تب کابینہ کی توسیع متوقع ہے‘‘۔

دیگر ذرائع کے مطابق کے سی آر جس کے متعلق کہاجاتا ہے وہ توہم پرست ہیں‘ کو ’’ متبرک وقت ‘‘ کاانتظار ہے۔ ایک سینئر ٹی آر ایس لیڈر کا کہنا ہے کہ کے سی آر ’’ آہستہ آگے بڑ ھ رہے ہیں‘ ‘ کیونکہ اہم وزرات کی اجرائی کے بعد وہ کوئی پریشانی مول لینا نہیں چاہتے ۔

بڑی کامیابی اس کام میں مشکلات کھڑی کررہی ہے کیونکہ کئی دعویدار ہوگئے ہیں‘ او رکئی طبقات ہیں جن کی خوش خیال میں رکھنا ہے۔وہیں محمود علی ایک مسلم چہرہ ہیں ‘ ٹی آر ایس کو ایس سی ‘ ایس ٹی او ردیگر پسماندہ طبقات کی بھی بھاری حمایت حاصل ہوئی ہے ۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزرات 16ہیں اور اسکے لئے دعویدار 30ہوگئے ہیں۔دیگر ذرائع کایہ بھی کہنا ہے کہ کے سی آر پارلیمانی انتخابات کا انتظار کررہے ہیں اور اراکین اسمبلی جنھیں لوک سبھا کاٹکٹ دیاجائے گا وہ جگہ خالی ہونے کے بعد منسٹری کی تکمیل کا کام کریں گے۔

بالآخر ان میں سے ایسے بھی جنھو ں نے کہاکہ چیف منسٹر اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کو لالچ دے رہے ہیں‘ بالخصوص کانگریس جس نے 19سیٹوں پر جیت حاصل کی ہے۔

وہ بھی منسٹری کے عہدوں کے قطعی فیصلے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔اس قسم کی قیاس ارائیاں او رتبصروں کا سلسلہ تو جاری ہے مگر سوائے کے سی آر کے کوئی نہیں بتاسکتا ہے کہ کابینہ کی توسیع میں تاخیر کی وجہہ کیاہے