کانگریس و بی جے پی سے درپردہ ربط، تازہ سروے میں بی آر ایس کے کمزور موقف کا انکشاف
حیدرآباد۔18۔مئی (سیاست نیوز) کرناٹک میں کانگریس کی شاندار کامیابی کے بعد بی آر ایس کے سربراہ اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے تیسری میعاد کو یقینی بنانے کیلئے مضبوط حلیف جماعت کی تلاش شروع کردی ہے۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے انتخابی مفاہمت کے مسئلہ پر انکار کے بعد بی آر ایس قیادت بی جے پی سے خفیہ مفاہمت کے امکانات تلاش کر رہی ہے تاکہ کسی طرح ریاست میں اقتدار برقرار رہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق کانگریس پارٹی نے ماقبل انتخابات مفاہمت سے انکار کردیا تاہم بعض سینئر قائدین نے معلق اسمبلی کی صورت میں مابعد الیکشن مفاہمت کے امکانات کو کھلا رکھا ہے۔ ہائی کمان سے قربت رکھنے والے بعض قائدین تک کے سی آر نے یہ پیام پہنچایا کہ تلنگانہ میں بی جے پی کے قدموں کو روکنے کیلئے انتخابی مفاہمت کی جاسکتی ہے ۔ ذرائع کے مطابق کے سی آر نے مفاہمت کی صورت میں کانگریس کو 30 تا 40 نشستوں کا پیشکش بھی کیا ہے لیکن کانگریس ہائی کمان نے پارٹی کے ریاستی یونٹ کی رائے حاصل کرنے کے بعد مفاہمت کی پیشکش کو نامنظور کردیا ۔ کے سی آر کو یقین ہے کہ معلق اسمبلی کی صورت میں مابعد الیکشن کانگریس سے مفاہمت ہوسکتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاست کی صورت حال کے بارے میں کرناٹک کے نتائج کے بعد جو سروے رپورٹس منظر عام پر آئی ہیں وہ بی آر ایس کے ناقص مظاہرہ کی پیش قیاسی کر رہی ہے۔ ارکان اسمبلی اور پارلیمنٹ کے اجلاس میں کے سی آر نے 105 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کیا لیکن چیف منسٹر کے دعوے پر خود سینئر قائدین کو بھروسہ نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پارٹی قائدین اور کیڈر کے حوصلے بلند رکھنے کیلئے یہ دعویٰ کیا گیا۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بی آر ایس میں موجود بی جے پی سے قربت رکھنے والے بعض قائدین یہ تجویز پیش کر رہے ہیں کہ بی جے پی سے خفیہ مفاہمت کی جائے اور قومی سطح پر بی جے پی اور تلنگانہ میں بی آر ایس کی کامیابی میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا معاہدہ کیا جائے ۔ کھلے عام مفاہمت کی صورت میں بی آر ایس کو مسلمانوں کے ووٹ سے محروم ہونا پڑے گا ۔ لہذا درپردہ مفاہمت کے فارمولے پر غور کیا جارہا ہے ۔ بی آر ایس کے کمزور موقف کو دیکھتے ہوئے کانگریس اور بی جے پی دونوں تنہا مقابلے کے حق میں ہیں۔ر