اپنی میڈیا کو ڈھال بناکر دوسرے میڈیا پر تنقید
محمد نعیم وجاہت
صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے۔ آزادی سے لے کر آج تک کئی تحریکات کی کامیابیوں میں میڈیا نے غیر معمولی رول ادا کیا ہے۔ عوامی شعور بیداری حکومتوں کے فیصلوں میں پائے جانے والے نقائص، پالیسیوں میں پائے جانے والے جھول، اسکامس، بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کو آشکار کرنا اور عوامی مسائل کو حکمرانوں تک پہنچانا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ میڈیا اپنی ذمہ داری بخوبی نبھا رہا ہے۔ مگر میڈیا کا رول حکمرانوں کو بالکل ہضم نہیں ہو رہا ہے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر کو لے لیجئے جنہوں نے تلنگانہ تحریک کے دوران سارا انحصار میڈیا پر کیا تھا آج یہی میڈیا انہیں سب سے بڑا دشمن لگنے لگا ہے۔ میڈیا کے سوال پر چیف منسٹر کے سی آر کو غصہ آجاتا ہے اور سوال کرنے والے صحافی کے ساتھ وہ دشمنوں جیسا برتاو کرتے ہوئے اس کی توہین کرتے ہیں تاکہ دوسرا کوئی صحافی ان سے سوال کرنے کی جرأت نہ کرے اگر کوئی دوسرے صحافی ان کی مرضی کے خلاف سوال کرتا ہے تو اس کو بھی اسی طرح کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو پہلے سوال کرنے والے صحافی نے کیا تھا۔ کیا سوال کرنا جرم ہے؟ سفید کو سفید اور کالے کو کالا کہنا غلط ہے؟ تو چیف منسٹر ایسا کریں پریس کانفرنس طلب کرنے سے قبل خود اپنی جانب سے سوالات تیار کرتے ہوئے میڈیا کے نمائندوں کو دے دیں اور ان سے کہہ دیں کہ ان تحریری سوالات کے سوائے دوسرے کوئی سوال نہ کریں۔ جب بھی حکومت کی ناکامیوں اور وعدہ خلافی پر سوال کیا جاتا ہے چیف منسٹر فوری بھڑک جاتے ہیں اور انتقامی رویے پر اتر آتے ہیں۔ اپوزیشن اور میڈیا کو ایک ہی لائن میں کھڑا کرکے ان کی توہین کرتے ہیں، جبکہ جمہوریت میں اپوزیشن حکومت کی واچ ڈاک ہوتا ہے۔ چیف منسٹر نے ریاست میں اپوزیشن کو کبھی قبول نہیں کیا ہے۔ قانون میں موجود جھول کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے منتخب عوامی نمائندوں کو ٹی آر ایس میں شامل کرلیتے ہیں بھی ان سے اس بارے میں کوئی سوال کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ سب کچھ قانون کے مطابق ہے۔ ارکان اسمبلی کو اپنی جماعتوں کے سربراہوں پر بھروسہ نہیں ہے۔ اس لئے وہ اپنی جماعت چھوڑ کر حکمران جماعت میں شامل ہوئے اپنے فیصلے کی مدافعت کے لئے وہ ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کے دور حکومت میں کی گئی سیاسی انحراف کا یا دوسری کسی ریاست کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے اقدام کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسمبلی میں سوال کرنے پر اپوزیشن اور پریس کانفرنس میں سوال کرنے پر صحافی چیف منسٹر کے سی آر کے نشانے پر ہوتے ہیں اور ان پر ایسا ٹوٹ پڑتے ہیں جیسا کہ ان کے پاس اس کے سوائے دوسرا کوئی کام نہیں ہے۔ ہٹ دھرمی سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید بڑھ جاتے ہیں۔ اچھی تجاویز پر غور کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔ چیف منسٹر نے آج تک کسی بھی مسئلہ پر اپوزیشن کا کل جماعتی اجلاس طلب نہیں کیا اور ناہی مرکز سے نمائندگی کرنے کے لئے کسی بھی مسئلہ پر کل جماعتی وفد کو دہلی لے گئے ہیں۔ اسمبلی میں عددی طاقت کے بل بوتے پر وہ یہ سمجھتے ہے کہ انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے اور وہ اپنے فیصلے کو عوامی رضامندی سے جوڑ کر پیش کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ میڈیا کی توہین کرنے تک محدود نہیں بلکہ انہیں دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔ جس طرح تمام شعبوں میں زوال آیا ہے اس طرح میڈیا بھی اس سے بچا نہیں ہے۔ سیاست کے بعد میڈیا بھی الودہ ہوگیا ہے۔ ہر سیاسی جماعت اور کارپوریٹ ادارہ کی جانب سے اپنا ایک اخبار اور ایک ٹیلی ویژن چینل شروع کرنے کے بعد اب صحافت بھی تجارت بن گئی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے میڈیا ہاوزس میں دن رات انہیں کے چرچے ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنے میڈیا ہاوزس کو اپنی غلطیوں کو چھپانے کے لئے ڈھال کی طرح استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اس جنگ میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا ہاوزس بھی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں اب کوئی جھجھک محسوس نہیں کررہے ہیں۔ کانگریس اور تلگودیشم کے دور حکومت میں جب میڈیا کی جانب سے کسی اسکام یا کرپشن کو آشکار کیا گیا تو چیف منسٹر کے بشمول کئی وزرا نے احلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفی پیش کردیئے یا پارٹی سربراہوں کی جانب سے استعفی بھی طلب کرلئے گئے تھے کسی بھی محکمہ کے خلاف یا وزارت کے خلاف الزامات عائد ہوتے تھے تو باضابطہ اس کی تحقیقات ہوا کرتی تھی قصور وار پائے جاتے یہ کارروائی بھی ہوا کرتی تھی۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد حالت پوری طرح تبدیل ہوگئے۔ حکمراں جماعت کے لئے اپوزیشن کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ناہی صحافت کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کا کوئی جواب دنیا مناسب سمجھا جارہا ہے، بلکہ میڈیا پر اپوزیشن کے جال میں پھنس کر یا اس سے ساز باز کرتے ہوئے حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اہم مسائل سے عوام کو توجہ ہٹانے کے لئے دوسرے مسائل کھڑا کردیئے جارہے ہیں۔ جس طرح اپوزیشن کو کمزور کردیا گیا ہے۔
اس طرح میڈیا کو بھی لاچار کردینے کی سازش پر عمل کیا جارہا ہے۔ ہر سیاسی جماعت اپنے میڈیا ہاوزرس کو اپنی ستائش اور دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لئے استعمال کررہی ہے۔ ہر سیاسی جماعت کا وہی حال ہوگیا ہے۔ وہ تنقید برائے تعمیر کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے بلکہ تنقید برائے تنقید کے رویے پر اترتے ہوئے اپنے ہر فیصلے کو دوست قرار دینے کے لئے اپنے میڈیا ہاوزس کا بھرپور استعمال کررہی ہیں۔ جس طرح ملک میں سب سیاستدانوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اسی مقام پر صحافت بھی پہنچ رہی ہیں۔ شعبہ صحافت میں بھی جی حضوری، چاپلوسی، حکمرانوں سے ملی بھگت، سازش، مذہبی نفرت پھیلانے میں بھی میڈیا کے چند گوشے اہم رول ادا کررہے ہیں۔ ہم سارے میڈیا ہاوزس کی باتیں نہیں کررہے ہیں۔ صرف ’’گودی میڈیا‘‘ کے رول کی بات کررہے ہیں جو سیکولر ملک میں فرقہ پرستی کو پروان چڑھانے اور عوام کے درمیان تفریق پیدا کرنے میں سیاستدانوں کی لگائی ہوئی آگ میں پٹرول ڈالنے کا کام کررہے ہیں۔ سیاسی قائدین ہر مسئلہ سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ چند میڈیا ہاوزس کی جانب سے ہر روز ایک نیا ایجنڈے پر کام کیا جارہا ہے۔ ہر چیز کو ہندو مسلم کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ ملک میں موب لنچنگ کے کئی واقعات پیش آئے جس میں تقریباً 150 افراد ہلاک ہوئے۔ جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ماباقی دلت اور پچھڑے طبقات کے افراد ہیں مگر اس معاملے میں میڈیا نے ذمہ دارانہ رول ادا کرنے کے بجائے جانبداری سے کام لیا ہے اور پولیس نے بھی مہلوکین اور ان کے ارکان خاندان کے خلاف مقدمات درج کئے جن پر الزامات تھے، ان کے خلاف معمولی مقدمات درج کئے جن میں کئی لوگ ضمانت پر ہیں تو کئی لوگ بہ عزت بری بھی ہوگئے ہیں۔ موب لنچنگ میں ملوث ہونے والوں کو بی جے پی کے قائدین نے تہنیت پیش کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ وزیر اعظم مودی اور مرکزی وزیر داخلہ اس پر خاموش رہے۔ مہاراشٹرا میں دو سادھو اور ان کے ڈرائیور کو ہجومی تشدد میں ہلاک کردیا گیا ہم اس کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ 150 اموات پر خاموش رہنے والے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ صرف تین اموات پر چراغ پا ہوگئے جبکہ سادھوں پر کئے گئے حملوں میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں جن 101 افراد کے خلاف مقدمات درج کئے گئے وہ سب کے سب اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ چیف منسٹر مہاراشٹرا اودھو ٹھاکرے نے اس کی وضاحت کی اور ثبوت کے طور پر مہاراشٹرا کے وزیر داخلہ نے ٹوئٹر پر ایف آئی آر پیش کردیا۔ اس انتہائی حساس مسئلہ پر ری پبلکن ٹی وی کے ایڈیٹر ارنب گوسوامی نے اپنے چیانل پر مباحثہ کے اہتمام کرتے ہوئے اس حملہ کو ہندو مسلم سے جوڑنے کی کوشش کی جبکہ حملہ آوروں کی فہرست سامنے ہے۔ چند مٹھی بھر افراد میڈیا میں شامل ہوتے ہوئے ملک کے امن و امان کو بگاڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس طرح ملک میں کورونا وائرس کو مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا ہے۔ سماج کو باندھ کر رکھنے کی بجائے توڑ نے کی جو کوشش کی جارہی ہے وہ ناقابل قبول ہے۔