کے سی آر کا درست اقدام
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راو نے بالآخر ریاستی اسمبلی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف قرار داد منظور کرنے کا اعلان کردیا ۔ چندر شیکھر راو پر مسلسل دباو ڈالا جا رہا تھا کہ وہ اس تعلق سے اپنے موقف کی وضاحت کریں۔ اس کے علاوہ ریاست میں این آر سی نافذ نہ کرنے اور این پی آر پر عمل نہ کرنے کے مطالبات بھی ہو رہے تھے ۔ چندر شیکھر راو نے اسمبلی کے سابقہ سشن میں ہی اعلان کیا تھا کہ ریاست میں این آر سی پر عمل آوری نہیں کی جائیگی ۔ وزیر داخلہ محمد محمود علی نے بھی چنددن قبل ریاست میں این آر سی نافذ نہ کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ شہریت ترمیمی قانون کا جہاں تک مسئلہ رہا ہے اس پر ٹی آر ایس نے پارلیمنٹ کے ایوانوں ہی میں اپنے موقف کو واضح کردیا تھا ۔ پارلیمنٹ میں اس قانون کی مخالفت کی گئی تھی اور کے سی آر نے کل پریس کانفرنس میں بتایا کہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے انہیں پارلیمنٹ میں بل کی تائیدکرنے کیلئے فون بھی کیا تھا لیکن اسی وقت انہوں نے امیت شاہ سے کہہ دیا تھا کہ ٹی آر ایس ایک سکیولر جماعت ہے اس لئے وہ قانون کی تائید و حمایت نہیںکرسکتی ۔ پارلیمنٹ میں ٹی آر ایس کی مخالفت کے باوجود یہ اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے کہ کے سی آر اس سیاہ قانون کے تعلق سے خاموشی اختیار کررہے ہیں تو مستقبل میں اس کی تائید بھی کی جاسکتی ہے لیکن کے سی آر نے کل واضح الفاظ میں ان قوانین کی مخالفت کرنے اور شہریت قانون کے خلاف اسمبلی میں قرار داد منظور کرنے کا اعلان کردیا ۔ جس طرح کے سی آر نے کہا کہ یہ قانون غیر دستوری ہے کیونکہ دستور میں کسی کے ساتھ بھی مذہب ‘ ذات پات اور رنگ و نسل کی بنیاد پر امتیاز برتنے کی کوئی گنجائش یا اجازت نہیں ہیں۔ جہاں تک شہریت قانون کا سوال ہے اس میں حکومت نے مسلمانوں کو شامل نہ کرتے ہوئے امتیازی موقف اختیار کیا ہے اور دستور کی اس میں کسی طرح کی کوئی گنجائش فراہم نہیں کی گئی ہے ۔ نہ صرف پڑوسی ممالک بلکہ دوسرے ممالک سے بھی جو ستائے ہوئے لوگ آتے ہیں انہیں شہریت دی جانی چاہئے اور اس کیلئے پہلے سے قانون موجود ہے لیکن یہ شہریت مذہب کی اساس پر نہیں دی جاسکتی ۔
بی جے پی کی نریندر مودی زیر قیادت حکومت اسی اساس پر فیصلے کر رہی ہے ۔جو لوگ ہندوستان میں پناہ کی غرض سے اور شہریت حاصل کرنے پہونچے ہیں انہیں مذہب کی بنیاد پر شہریت دی جا رہی ہے ۔ جو قانونی ترمیم حکومت نے کی ہے اس میں واضح الفاظ میں اس کا اندراج بھی ہے ۔ یہ عمل دستوری نہیں ہوسکتا اور چندر شیکھر راو نے یہی بات واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت کی رویہ پر سوال اس لئے بھی پیدا ہو رہے تھے کیونکہ ریاست میں مرکزی حکومت کے خلاف قوانین پر احتجاج کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے ۔ عوام کا جو احتجاج ہے وہ ریاستی حکومت کے خلاف نہیں تھا کیونکہ یہ مسئلہ ریاست کے اختیار کا نہیں تھا ۔ ریاستی حکومت اپنے طور پر صرف اس تعلق سے کوئی فیصلہ کرسکتی تھی کہ ان قوانین پر عمل ہوگا یا نہیں۔ قانون واپس لینا مرکزی حکومت کا کام ہے اور اسی پر دباو ڈالنے عوام نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ مختلف مقامات پر عوامی احتجاج کو جس طرح سے پولیس کی جانب سے ناکام بنادیا گیا اور احتجاجیوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے عوام اندیشوں کا شکار ہو رہے تھے ۔ مختلف گوشوں سے کہا جا رہا تھا کہ جس طرح سے پولیس کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے شائد ٹی آر ایس حکومت کے قول و فعل میں تضاد ہوسکتا ہے لیکن چیف منسٹر چندر شیکھر راو کے اعلان نے عوامی اندیشوں کو دور کردیا ہے اور کے سی آر کو اب اس قرار داد کی منظوری کو یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔
کے سی آر نے خود بھی اعلان کیا ہے کہ وہ مرکز کے ان اقدامات کے خلاف حیدرآباد میں ایک بڑا جلسہ عام منعقد کرینگے جس میں لاکھوں افراد کی شرکت کو یقینی بنایا جائیگا ۔ جب خود کے سی آر احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی پولیس کو بھی ہدایت دینی چاہئے کہ ریاست میں ان قوانین کے خلاف عوامی احتجاج کو کچلنے سے گریز کیا جائے ۔ عوام نے اب تک جو احتجاج کیا ہے اس نے تاریخ بنائی ہے اور ایک معمولی سا بھی تشدد یا کشیدگی کا واقعہ پیش نہیں آیا ہے ۔ اس کے باوجود احتجاج کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے اور کہیں اجازت دی جا رہی ہے تب بھی شرائط عائد کی جا رہی ہیں۔ پولیس کو اس رویہ سے گریز کرنے کی ضرورت ہے اور چیف منسٹر کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی پولیس کو حقیقی معنوں میں فرینڈلی پولیس ہونے کی ہدایت دیں۔