گائے اور ہندوستانی سیاست

   

زینب سکندر
بی جے پی کی زیر قیادت حکومت نے 2019 میں راشٹریہ کام دھینو آیوگ (کاو کمیشن) کا قیام عمل میں لایا جس نے آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ یہ دراصل دائیں بازو کی تنظیموں اور ان کے حامیوں کا گائے کے تئیں جنون ہے۔ پھر سال 2021 آپ کو یہ قائل کرائے گا کہ ان لوگوں کا یہ جنون حقیقی ہے۔ مودی حکومت نے اب ’’کاؤ سائنس‘‘ کے موضوع پر ایک قومی امتحان منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ راشٹریہ کام دھینو آیوگ (آر کے اے) کے صدر نشین ولبھ بھائی کاتھیریا کے مطابق ’’گائے سائنس سے بھری ہے‘‘ یعنی اس میں سائنس ہی سائنس ہے۔ یہ بات ایسا شخص کہہ رہا ہے جس نے گائے کے گوبر سے تیار کردہ ایک چپ لانچ کی ہے اور اس چپ کے بارے میں دعویٰ ہے کہ یہ بظاہر موبائل فونس سے خارج ہونے والے تابکاری اثرات کو کم کرتی ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پنچ گاویہ کے استعمال سے کم از کم کورونا کے 800 مریضوں کو شفا ہوئی ہے۔ آخر پنچ گاویہ کیا ہے؟ یہ دراصل گوبر، گائے کا پیشاب، گھی، دودھ اور دہی کے مرکب سے بنایا جانے والا ایک مشروب ہے۔

گائیوں کے ساتھ ہندوستان کی سیاسی تاریخ
جہاں تک گائے کا سوال ہے یہ ایک طویل عرصہ سے ہندوستانی سیاست کا اجتماعی تصور بنی ہوئی ہے چاہے ہندوستان کووڈ ۔ 19 کی عالمی وباء میں گھرا رہے یا پھر معاشی سست روی کا شکار ہو جائے یا سرحد پر قومی سلامتی خطرہ میں پڑ جائے۔ گائے کی سیاسی قدر کبھی بھی کم نہیں ہوئی اور پچھلے سال تو گائے عوامی مباحث کا موضوع بنی رہی ہے۔ دراصل گائے ہندوستانی تصور پر چھائی ہوئی ہے اور اس معاملہ میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کونسی پارٹی یا جماعت اقتدار میں ہے۔ مراجی دیسائی سے لے کر ڈگ وجئے سنگھ اور ڈگ وجئے سنگھ سے لے کر مودی کی نامور کابینہ سب میں گائے کے تئیں ایک جنون دیکھا گیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ انگریزوں کے خلاف 1857 کی بغاوت کے دوران یہ افواہ پھیلائی گئی کہ گائے کی چربی کارتوس پر لگائی جارہی ہے اور گولی چلانے سے قبل انگریز فوج میں ملازمت کررہے ہندوستانی سپاہیوں کو اپنے منہ سے کارتوس کا پن کھولنا پڑتا تھا (یہ بھی افواہ پھیلائی گئی کہ کارتوس پر خنزیر کی چربی استعمال کی گئی جس کے نتیجہ میں مسلمان بھی برہم ہوگئے تھے)۔
مودی کا ہندوستان

آج بھی بھارتیہ جنتا پارٹی گائے کے جنون میں بری طرح مبتلا ہے۔ یہ اس لئے کیونکہ مودی نے 2014 میں بحیثیت وزیر اعظم اقتدار سنبھالا اور شاید جس طرح مودی خبروں میں رہے اسی طرح گائے بھی خبروں میں چھائی رہی۔ جہاں تک گائے کے تئیں جنون کا معاملہ ہے بھولے بھالے لوگ اس جنون میں بہ آسانی مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ ایک منصوبہ کے تحت لوگوں پر یہ زور دیا جاتا ہے کہ گائے ایک خصوصی اہمیت رکھتی ہے اور مذہبی اعتبار سے اس کا بلند مقام ہے۔ اس طرح بھولے بھالے لوگ مذہب کا نام آتے ہی گائے کا احترام کرنے لگتے ہیں، لیکن آج جو نئی بات ہونی جارہی ہے وہ جنوب کے ساتھ متضاد سائنس اور عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ گائے کے جسم سے متعلق ہے۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے قومی نعرہ جئے جوان جئے کسان میں سائنس کا اضافہ کرتے ہوئے جئے جوان جئے کسان اور جئے وگیان کا نعرہ لگایا تھا لیکن جب یہ نعرہ بی جے پی سیاست کے پاس آتا ہے تو وگیان صرف انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (ISRO) میں راکٹ داغے جانے یا لانچ کئے جانے تک ہی محدود ہے۔ تاہم سیاسی طور پر گائیوں کا موضوع خون میں لت پت دکھائی دیتا ہے چاہے وہ ذبیحہ گاؤ ہو یا پھر گائیوں کے نام پر انسانوں کو ذبح کئے جانے جیسی حرکات۔ گائیوں کے نام پر جو بھی سیاست کی گئی وہ شرپسندی اور تشدد سے بھری رہی اور مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستانیوں کا ایک بہت بڑا طبقہ خاص طور پر جنوب، مشرق اور شمال مشرقی علاقہ میں لوگ گائے کو غذا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس کا گوشت ان علاقوں میں نہ صرف غیر ہندو کھاتے ہیں بلکہ ہندو آبادی بھی استعمال کرتی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ بیف قانونی طور پر بنا کسی رکاوٹ کے گوا، مغربی بنگال، کیرالا، آسام، اروناچل پردیش، میزورام، میگھالیہ، ناگالینڈ اور تریپورہ جیسے علاقوں میں دستیاب ہے۔ ان میں سے بیشتر ریاستوں پر بی جے پی کی حکمرانی ہے۔

اس کے باوجود ہماری حکومت کو کوئی بھی گائیوں اور ان کے نگہداشت سے متعلق وزارت قائم کرنے سے روک نہیں سکتا اور نہ ہی روک پایا ہے۔ اب تو نریندر مودی حکومت نے لوگوں میں گائیوں کی اہمیت کے بارے میں شعور بیدار کرنے باالفاظ دیگر تجسس پیدا کرنے کے لئے گاؤ سائنس پر قومی امتحانات منعقد کررہی ہے جس کا مقصد لوگوں کو گائیوں کی اہمیت سے واقف کروانا اور ان میں شعور بیدار کرنا ہے۔ اس امتحان کے نصاب کو پڑھنے پر یہ بہ آسانی واضح ہوتا ہے کہ گائے ایک جانور نہیں بلکہ مذہبی تخلیق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 54 صفحات پر مشتمل کتابچہ میں جسے آر کے اے نے اسٹڈی میٹیریل کے طور پر فراہم کیا ہے آپ یہ دیکھیں گے کہ گائے کا صرف گاؤ ماتا کے طور پر حوالہ دیا گیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ کتابچہ بہت زیادہ مذہبی دکھائی دیتا ہے جس میں ویداس سے شلوکاس لئے گئے ہیں تاکہ ہندو مذہبی کتابوں میں گائے کی اہمیت اور فوائد کے بارے میں لوگوں کو واقف کیا جائے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس کتابچہ میں جرسی گائے کے اے ون درجہ کے دودھ کا ہماری دیسی گائے کے A-2 گریڈ دودھ سے تقابل کیا گیا ہے۔ کئی سائنسی جریدوں کے مطابق جرسی گائے کے دودھ کو انسانی صحت کے لئے بہتر مانا جاتا ہے لیکن آر کے اے کے کتابچہ نے جرسی گائے اور دیسی گاؤ ماتا کے درمیان جو تقابل کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جرسی گائے کو کاہل، غیر صحتمندانہ اور بے حس قرار دیا گیا۔ اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح سونیا گاندھی کو ایک جرسی گائے سے تعبیر کیا تھا آر کے اے کتابچہ میں جو باتیں درج ہیں ایسا لگتا ہے کہ اُس سوچ کی جڑیں وزیر اعظم مودی کے اس بیان میں پیوست ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ گائے کمیشن کے کتابچہ میں عجیب و غریب باتیں لکھی گئی ہیں مثال کے طور پر یہ کہا گیا ہے کہ ذبیحہ گائے زلزلوں کا باعث بنتی ہے اور اس سلسلہ میں ڈاکٹر مدن موہن بجاج کے خیال کو پیش کیاگیا ہے

جس میں انہوں نے کہا کہ جن جانوروں بشمول گائیوں کو جب ذبح کیا جاتا ہے تو ان کے درد کی لہریں طبعیاتی لہروں یا صوتی لہروں کا باعث بنتی ہیں اور یہ سب کچھ اینسٹائن پین ویز (EPW) کی وجہ سے ہوتا ہے اور پھر عملاً یہ کیفیت زلزلہ کا باعث بنتی ہے لیکن اس مفروضہ کو ہنوز کسی نے قبول نہیں کیا۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی لیڈر مینکا گاندھی نے بھی اسی موضوع پر ایک مضمون لکھا اور انہوں نے جو نظریہ پیش کیا اس پر ماہرین طبقات الارض ہنسیں گے اس کے باوجود انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے نظریہ میں دم ہے۔ اگر اس نظریہ کو تسلیم کیا جائے تو پھر بی جے پی قائدین سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ گائے کے ذبیحہ سے زلزلے آتے ہیں تو پھر مذہب یا گائے کے نام پر جب انسانوں کا قتل کیا جاتا ہے تو کیا زلزلے نہیں آتے؟ بہرحال جانور بے زباں ہوتے ہیں اس کے باوجود ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گائے ہمیشہ سے ہندوستانی سیاست کا مرکزی تصور بنی رہی اور ہندوستانی جذبات کو مذہب سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا اور اگر مذہب کے نام پر توہم پرستی کی جاتی ہے یا لوگ اندھی تقلید کرتے ہیں تو یہ ایسی بیماری ہے جس کا کسی بھی سائنس میں علاج نہیں۔ آج دنیا ہندوستان کو 21 ویں صدی میں ایک معاشی معجزہ ماحولیاتی تبدیلی کے حل اور جغرافیائی توازن کے لئے بڑی امید سے دیکھ رہی ہے۔ ایسے میں گائے کہیں ہمیں اپنے بلند مقاصد سے دور نہ کردے اس کا ضرور خیال ہونا چاہئے۔