گائے کے بعد رام فرقہ پرستوں کا ہتھیار

   

رویش کمار
بچپن میں طلوع آفتاب کے وقت دریائے گنگا میں نہانے کے دوران کئی لوگ دکھائی دیتے تھے۔ ان میں سے بعض روزانہ آنے والے ہوتے جو رام کا نام لے کر نہاتے تاکہ تیزدھارے کے بہاؤ کو روکتے ہوئے صبح کے سردپن میں کمی لائی جاسکے۔ کپکپاتا شخص بھی رام کا نام لے کر ڈبکی لگا دیتا۔ اب جئے شری رام کہتے ہوئے کمزوروں کو ہلاک اور خوفزدہ کیا جارہا ہے۔ ابھی تک کمزور مسلمان گائے کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں ہلاک کئے جارہے تھے۔ اب رام کے نام پر ’جئے‘ ہلاکت کا کام کررہا ہے۔ دونوں یکساں نوعیت کے سیاسی سماج سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ وہی سیاسی سماج ہے جس کے منتخب نمائندے لوک سبھا میں ایک رکن کو یاددہانی کرا رہے تھے کہ وہ مسلم ہے اور اسے جئے شری رام کے نام پر تنگ کیا گیا۔ سڑک کا واقعہ پارلیمنٹ میں ’باوقار‘ بن رہا ہے۔

دہلی میں راہرو محمد مومن نے کسی کی کار کو چھو دیا۔ فوری طور پر کچھ نہیں ہوا۔ کار کے مالک کو قریب بلاکر کہا گیا کہ سب ٹھیک ہے لیکن دفعتاً اُس نے مسلم شخص کو زدوکوبی شروع کردی۔ جئے شری رام کی بات بھی نکل پڑی۔ کار کے مالک نے اپنی گاڑی سے مومن کو ٹکر دی۔ اسی طرح جئے شری رام سے متعلق واقعات راجستھان اور گرگاؤں میں بھی پیش آئے ہیں۔ سڑکوں پر آنے والے دنوں میں ایسے مزید واقعات کا قوی اندیشہ ہے۔ یہ ایک بیماری ہے جس میں مبتلا افراد کسی کو بھی ہلاک کردیتے ہیں ، جس کیلئے کار سے ٹکرانا یا کوئی معمولی بحث و تکرار کی وجہ کافی ہے۔ ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا جس میں کار سے تصادم ہوا یا معمولی بات پر بحث چھڑگئی، بس پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے بڑا ہجوم جمع ہوگیا۔
اگر اسی طرح فرقہ وارانہ طیش چلتا رہا تو سیاسی سماج کا تانا بانا بکھر جائے گا، پھر اس کے نتائج و عواقب مزید خطرناک ہوں گے۔ سوسائٹی میں پہلے سے ہی جو غصہ ہے اب اسے ایک اور چنگاری مل گئی ہے۔ پہلے گائے اور اب جئے شری رام۔ جمشیدپور میں 24 سالہ شمس تبریز کو لوگوں نے چوری کے شبہ میں پکڑا۔ تبریز کی فیملی کا کہنا ہے کہ اُس نے چوری نہیں کی، لیکن آپ جنون اور لا سسٹم کا حال دیکھئے۔ تبریز کو ستون سے باندھ کر سات گھنٹوں تک پیٹا گیا۔ جئے شری رام کی آوازیں گونجتی رہیں، یہاں تک کہ تبریز کی موت ہوگئی۔ قانون کی حکمرانی کے باوجود ہجوم کی حکمرانی جاری ہے۔ ایسے کراؤڈ کو مذہب، ذات اور رواج کے نام پر استثنا حاصل ہے۔ اگر کوئی شخص کسی عورت کو جادوگرنی قرار دیتے ہوئے مارے تو ذات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ شادی شدہ جوڑوں کو ہلاک کرتی ہے۔ اسی طرح اب یہ معمول بن گیا ہے کہ کوئی مسلم اگر کسی جرم یا جھگڑے میں ملوث پایا جائے تو اسے جئے شری رام کے نام پر ہلاک کردیا جائے۔

ہم سیاسی اور ذہنی طور پر بیمار ہوچکے ہیں۔ ہم ذیابیطس جیسی بیماریوں کے ساتھ جینے لگے ہیں، اسی طرح سیاسی اور ذہنی بیماری بیماری کا معاملہ ہوچلا ہے۔ آخر کو کتنے معاملے درج ہوتے ہیں، واقعی ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔ قاتلوں کو معلوم ہے کہ اُن کے خلاف بولنے والے ایک دن تھک جائیں گے۔ ان کی حرکتوں کی مذمت کے معاملے میں بھی وہ یہی سوچتے ہیں۔ قاتلوں کے پاس ہتھیار بدل رہے ہیں۔ پہلے گائے کا ہتھیار تھا اور اب جئے شری رام نے جگہ لے لی ہے۔
جب چوکسی کا وقت آجائے تو غصہ کی عام حالت کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔ پھر کوئی انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ مصیبت میں نہ ہوگا۔ کسی یونین کے 50 سالہ والنٹیر کو غازی آباد (یو پی) میں ہلاک کردیا گیا۔ وہاں پڑوس میں لڑکے ہیں، ان پر اپنی لڑکیوں سے میل جول کا شبہ کرتے ہوئے انھیں مار مار کر ہلاک کردیا گیا۔ یہاں رام کا نام نہیں لیا گیا، لیکن غصہ نے شکار کیا، اور عملاً رام کا نام لیا۔
ایسے کئی واقعات پیش آرہے ہیں جہاں لوگوں کو مذہب کے نام پر اس کے بغیر ہلاک کیا جارہا ہے۔ جب کوئی بیماری سیاسی مرض بن جاتی ہے تو یہ کسی ویکسین سے ختم نہیں ہوتی ہے۔ جمشیدپور، گروگرام، دہلی، راجستھان کے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ شہریت کے نظریہ سے دغا ہورہی ہے۔ میں یہ بھی لکھ سکتا تھا کہ رام سے دغا کی جارہی ہے لیکن رام کے نام کی وجہ سے نہیں لکھا مگر فرق نہیں پڑتا کہ وہ کسی کی جان کوئی بھی بہانے سے لے۔ وہ رام کا نام اس لئے لیں گے کیونکہ تب سیاسی سماج اُن کا ساتھ دے گا اور اقتدار انھیں بچالے گا۔
ravish@ndtv.com