’’گائے ‘‘کے نام پر غنڈوں کو کھلی چھوٹ

   

رام پنیانی
دو مسلم نوجوان جنید اور ناصر 16 فروری کو راجستھان کے میوات علاقہ میں مقیم اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کیلئے روانہ ہوئے۔ خود ساختہ گاؤ رکھشکوں کے گروپوں نے انہیں گھیر کر پکڑ لیا (اغوا کیا) اور پھر دونوں کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ نتیجہ میں دونوں نوجوانوں کی المناک موت ہوگئی۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ہریانہ اور اس کے اطراف و اکناف سرگرم گاؤ رکھشکوں کے گروپس بڑے جانوروں کے مالکین اور انہیں منتقل کرنے والوں کو زدوکوب کرتے رہے ہیں۔ شاید اس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جنید اور ناصر کے اغوا پھر ان کے قتل سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے۔ پولیس کسی طرح غیرسماجی عناصر کے ان گروپوں کی مدد کررہی ہے اور انہیں تحفظ فراہم کررہی ہے۔ ان دونوں کے قتل سے متعلق میڈیا میں جو رپورٹس منظر عام پر آتی ہیں، ان سے ان الزامات کو تقویت ملتی ہے کہ معاشرہ کے کمزور طبقات بالخصوص میوات کے مسلم ڈیری فارمرس، مویشیوں کی افزائش کرنے والوں ، تاجرین اور ٹرانسپورٹرس کو پولیس اور گاؤ رکھشک مل جل کر کھلے عام نشانہ بنارہے ہیں۔ ایسی ہی ایک ٹولی جس کی قیادت مبینہ طور پر مونو مانیسر کرتا ہے، گایوں کے تحفظ کے نام پر کام کررہی ہے۔ اس ٹولی نے جنید اور ناصر کو شدید زدوکوب کیا اور پھر بعض وجوہات کی بناء پر وہ لوگ شدید زخمی بلکہ ادھ مرے جنید اور ناصر کو ایک پولیس اسٹیشن لے گئے جو راجستھان کی سرحد سے زیادہ دور نہیں ہے لیکن پولیس نے ان دو مظلوم نوجوانوں کو دواخانہ منتقل کرنے یا پھر انہیں پولیس اسٹیشن لانے والوں کو گرفتار کرنے سے انکار کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ پولیس کے انکار پر اس ٹولی نے مبینہ طور پر ناصر اور جنید کو ہریانہ کے ضلع بھیوانی کے ایک دور دراز علاقہ میں لے کر ان کی ہی ویان میں بند کرکے آگ لگا دی۔ مقامی افراد نے جلی ہوئی گاڑی اور دو جھلسی ہوئی ناقابل شناخت نعشوں کے پائے جانے کی پولیس کو اطلاع دی۔ اس بات کی بھی اطلاع ہے کہ جنید اور ناصر کو جس کار میں اغوا کیا گیا۔ وہ ایک سرکاری محکمہ کے نام پر رجسٹرڈ ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو گاڑی ایک سرکاری محکمہ کے نام پر رجسٹرڈ ہے، اسے گاؤ رکھشک کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ سرکاری عہدیداروں اور گائے کے تحفظ کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والوں کے درمیان تال میل پایا جاتا ہے، ورنہ غیرسرکاری لوگ یا تنظیموں سے تعلق رکھنے والے سرکاری گاڑی کیسے استعمال کرسکتے ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ حقوق انسانی کے جہدکار اور سرگرم کارکن ہرش وردھن نے جو کاروان محبت کے بانی بھی ہیں۔ راجستھان کے ضلع بھرت پور میں واقع ناصر اور جنید کے گاؤں کا دورہ کیا۔ یہ گاؤں ہریانہ کی سرحد کے بالکل قریب ہے۔ ان کا مقصد مہلوک نوجوانوں کے غم زدہ ارکان خاندان اور گاؤں والوں کو پرسہ دینا، ان کے زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش تھی۔ ہرش وردھن نے اس تمام واقعہ کے بارے میں موقر انگریزی روزنامہ ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ میں کچھ یوں لکھا: ’’میں نے جب گاؤ رکھشک مونو مانیسر کے سوشیل میڈیا پیجس کی جانچ کی تب حیران و پریشان رہ گیا۔ سوشیل میڈیا پر اس کی اور اس کی ٹولی کے ارکان کی ایسی تصاویر موجود ہیں جس میں وہ کھلے عام عصری آتشیں اسلحہ اُٹھائے ہوئے ہے۔ ان کی گاڑیوں میں ایسے سائرن استعمال کئے جارہے ہیں جیسے پولیس جیب کے سائرن ہوتے ہیں۔ ایک گاڑی پر گولیاں برساتے ہوئے بھی انہیں دیکھا جاسکتا ہے اور جن افراد کو وہ پکڑتے ہیں، اسے بے تحاشہ مارپیٹ بھی کرتے ہیں۔ جنید اور ناصر کے گاؤں والے ان قتلوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کے وسط فروری سے اب تک دو خود ساختہ مہا پنچایتوں کا انعقاد بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ وہ مہا پنچایتیں ہیں جنہیں سنگھ پریوار کی ملحقہ بدنام زمانہ تنظیموں بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کی تائید حاصل ہے۔ اس میں ہندو سینا نامی ایک اور تنظیم بھی ملوث ہے۔ آپ کو جان کر کوئی حیرت نہ ہوگی کہ مہا پنچایتوں میں اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں ، نفرت کا زہر گھولنے والے بیانات جاری کئے گئے مقررین نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر راجستھان پولیس گاؤ رکھشک مونو مانیسر کو گرفتار کرتی ہے تو اسے سنگین عواقب و نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 22 فروری کو منعقد کی گئی ایک مہا پنچایت میں ایک خود ساختہ سادھوی ’’آستھا ماں‘‘ نے جنید اور ناصر کے قتل کے ضمن میں لو جہاد کی بات کی اور اس کے خطاب کی سماعت کرنے والے ہندوؤں سے کہا کہ وہ مسلمانوں پر جمع کریں۔ تاحال جنید اور ناصر قتل کے سلسلے میں 3 ملزمین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ تینوں پولیس مخبر ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پچھلے کچھ برسوں سے گاؤ رکھشکوں کی دہشت اور ان کے خطرہ میں اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر بی جے پی 2014ء میں جب سے اقتدار میں آئی تب سے گائے کے تحفظ کے نام پر قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ واضح رہے کہ بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں اس طرح کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر سال 2015ء میں ہریانہ میں ایک قانون منظور کیا گیا ہے جسے تحفظ گائے و فروغ گائے قانون کا نام دیا گیا۔ اس قانون میں سال 2019ء میں ترمیم کی گئی، ایسی ترمیم جس کے تحت گائیوں کی ناجائز منتقلی یا اسمگلنگ میں ملوث افراد کو دس سال تک سزا کی گنجائش فراہم کی گئی تب سے گائے کے تحفظ کے نام پر علاقہ میں مختلف گروپس حرکت میں آگئے۔ یہ عناصر ان گاڑیوں کو روک رہے ہیں جو فارم ہاؤزس کے جانوروں کو لے جاتی ہیں۔ ڈرائیوروں اور جانوروں کے مالکین کو سودے بازی کیلئے مجبور کررہے ہیں یا پھر انہیں شدید زدوکوب کا نشانہ بنارہے ہیں۔ یہاں تک کہ جائز دستاویزات رکھنے والے ٹرانسپورٹرس کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے۔ ایسے میں یہ کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے، اس بارے میں ہریانہ پولیس اچھی طرح واقف ہے؟ میوات کے مسلمانوں کا جہاں تک تعلق ہے، وہ اپنے گذارہ کیلئے ڈیری فارمنگ پر انحصار کئے ہوئے ہیں۔ ان کی روزی روٹی ڈیری فارمس یا ڈیری کے کاروبار سے جڑی ہوئی ہے لیکن وہ مونو مانیسر گروپوں کا باقاعدہ نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرکے اپنے ناپاک سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے گائے اور بیف کے استعمال کو جان بوجھ کر ایک بہت بڑے مسئلہ میں تبدیل کیا گیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ سال قبل مدرسہ کے ایک طالب علم جس کا نام بھی جنید تھا، اسے ایک ٹرین میں صرف اس شک کی بنیاد پر ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کے ٹفن میں بیف تھا۔اس وقت جبکہ ٹرین میں غنڈے ، جنید اور جنید کے بھائی کو شدید زدوکوب کررہے تھے، وہاں موجود دوسرے مسافرین بزدلوں کی طرح ٹھہرے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اسی طرح محمد اخلاق اور پہلو خاں کے قتل کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک ہجومی تشدد کا سوال ہے، یہ نہ صرف ایک جرم ہے بلکہ ہجومی تشدد کے متاثرہ کی شناخت کے تئیں معاشرہ متعارف کروایا گیا، راست سیاسی اور سماجی ہتھیار ہے اور اس کا پہلا نشانہ مسلمان ہیں پھر دلت اور قبائیلی ہیں، اس لئے جب بھی ہجومی تشدد میں کسی کو قتل کیا جاتا ہے۔سارے الزامات مقتول کے سر تھونپ دیئے جاتے ہیں اور قاتلوں کو تہنیت پیش کی جاتی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جس وقت اخلاق کو بہیمانہ انداز میں قتل کیا گیا ، اس وقت ذمہ دار شہری اپنے قومی ایوارڈس واپس کرنے پر مجبور ہوئے۔ گائے کے گوشت کے بہانے ہندوؤں اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے ، انہیں مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے والوں کی کوششوں کو روکنے ملک کے ممتاز ادیب، سائنس داں اور سماجی کارکن فوری آگے آئے لیکن اب ایسا نہیں ہورہا ہے۔ IndiaSpend کے مطابق 2010ء اور 2017ء کے درمیان بیف کو بہانہ بناکر جن لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان میں 51% مسلمان تھے۔ ہجومی تشدد کے پیش آئے۔ 63 واقعات میں اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ لوگوں میں 86% مسلمان تھے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے مئی 2014ء میں برسراقتدار آنے سے قبل اس طرح کے صرف 3% واقعات پیش آئے تھے۔ IndiaSpend مزید لکھتا ہے کہ گائے سے جڑے تشدد کے 63 واقعات میں سے 32 واقعات بی جے پی کی زیرقیادت ریاستوں میں پیش آئے۔ اہم بات یہ ہے کہ گائے کے تحفظ کے نام پر اور سنگھ پریوار کی ملحقہ تنظیموں سے حوصلہ پاکر غنڈوں کی ٹولیاں سرگرم ہوگئی ہیں اور زبردستی رقم کی وصولی ، لوگوں پر حملوں اور قتل و غارت گری میں ملوث ہورہی ہیں جبکہ انتظامیہ اور پولیس صورتحال پر عجیب و غریب بیانات دے کر خاموش ہوجاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ قاتل آزاد گھومتے ہیں اور مقتولین پر الزامات عائد کردیئے جاتے ہیں۔ نفرت انگیز تقاریر اور نعرے لگانے والوں کے خلاف بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔