حلوائی کی دوکان پر دادا کی فاتحہ
صدر نشین یا اراکین وقف بورڈ کی عدم موجودگی والے اجلاس میں فیصلے کرنے کا کوئی جواز نہیں
حیدرآباد 13 مئی (سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ کے امور میں سیکریٹریٹ کی راست مداخلت وقف بورڈ اختیارات کو چیالنج کے مترادف ہے اور وقف بورڈ عہدیداروں کی جانب سے بورڈ کے متعلق فیصلوں کے ذریعہ بورڈ کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش ہو رہی ہے جبکہ وقف بورڈ ’خود مختار ‘ ادارہ ہے۔وقف قوانین کے مطابق وقف بورڈ امور میں ریاستی حکومتوں کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے اور جو عہدیدار وقف قوانین کے مطابق خدمات کی انجام دہی کے دعویدار ہیں وہ غیر مجاز افراد سے وقف جائیدادوں کے تحفظ ‘ تعمیر اور انہیں لیز پر دینے کی مشاورت کرنے لگے ہیں جو وقف جائیدادوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کے مترادف ہے ۔ حکومت تلنگانہ کو اب یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ ’ریاست میں مرکزی حکومت کے وقف مرممہ قوانین پر عمل آوری کی راہ ہموار کررہی ہے‘ ! تلنگانہ وقف بورڈ سے اختیارات بالواسطہ طور پر چھین لئے جانے کے اقدامات نے صدرنشین وقف بورڈ اور اراکین میں بے چینی پیدا کردی ہے اور عہدیداروں کی من مانی اور ان کی غیر قانونی و غیر مجاز پشت پناہی کے اقدامات ریاست کی مسلم تنظیموں اور قائدین میں تشویش پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ حج ہاؤز سے متصل ’گارڈن ویو وقف مال‘ کی تعمیر مکمل کرنے اقدامات کو یقینی بنانے یا لیز پر دینے کے متعلق فیصلہ کا اختیار وقف بورڈ کو ہے اور وقف قوانین اس کیلئے بورڈ کو مجاز گردانتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے جائزہ اجلاس منعقد کرکے اعلانات کیا جانا وقف بورڈ کو بے اختیار کرنے کے مماثل ہے۔ گارڈن ویو وقف مال کی تعمیر کو مکمل کرنے یا اسے لیز پر دینے اگر کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو یہ فیصلہ بورڈ اجلاس میں کیا جانا چاہئے لیکن اس طرح کے اہم فیصلوں کا اعلان صدرنشین بورڈ یا اراکین بورڈ کی غیر موجودگی والے اجلاسوں کے ذریعہ کیا جانے لگے تو تلگو دیشم دور اقتدار کی یاد تازہ ہوتی ہے کیونکہ تلگودیشم نے اپنے دور اقتدار میں لاکھوں کروڑ مالیتی موقوفہ جائیدادوں کو اس وقت کے ادارہ آندھرا پردیش انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن لمیٹڈ کے توسط سے حاصل کرکے مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالہ کئے تھے اور وقف بورڈ کی ملکیت ان اراضیات کوریاست کی ترقی کے نام پر حاصل کرکے فروخت کردیا گیا اور جب قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیاگیا تو کافی دیر ہوچکی تھی اور ان جائیدادوں کے مقدمات میں وقف بورڈ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ حکومت اگر دوبارہ اسی ڈگر پر گامزن ہوکر عہدیداروں کے ذریعہ وقف بورڈ سے مشاورت کے بغیر اس طرح کے فیصلو ںکو منظوری دیتی ہے تو ان جائیدادوں سے بھی بورڈ کو ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے جو کہ شہر کے مرکزی علاقوں میں موجود ہیں۔3