گاندھی ۔ گوڈسے قوم پرستی کے متضاد نظریات

   

رام پنیانی
اس گاندھی جینتی کے موقع پر ٹوئٹر پر یہ دیکھا گیا کہ ناتھورام گوڈسے کا ٹرینڈ چلایا جارہا تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا اور ٹوئٹر پر ایک طوفان برپا کردیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے ٹرینڈ نے اسی پلیٹ فارم پر گاندھی جی کو خراج عقیدت پیش کئے جانے کے ٹرینڈ کو پھیکا کردیا تھا۔ جاریہ سال گوڈسے کو خراج تحسین پیش کرنے یا اس کی تائید میں ناتھورام گوڈسے زندہ باد جیسے نعرے ٹوئٹ کئے گئے اور اس طرح کے ٹوئٹس کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی، جبکہ گزشتہ سال یعنی 2019 میں گوڈسے کی تائید میں جو ٹوئٹس کئے گئے تھے ان کی تعداد صرف 20 ہزار تک محدود تھی۔ جاریہ سال جو ٹوئٹس کئے گئے وہ دراصل BOT اکاؤنٹس سے کئے گئے جبکہ بعد کے دیگر ایام میں ’’سشانت کے لئے انصاف‘‘ جیسے ٹوئٹس کی بھرمار رہی۔ یہ ٹوئٹس بالی ووڈ اداکار سشانت سنگھ راجپور کی خودکشی سے ہوئی موت کے بعد سے ہی شروع کردیئے گئے تھے۔ جہاں تک گاندھی جی کو خراج عقیدت اور ناتھورام گوڈسے کی مذمت کئے جانے کا سوال ہے پچھلے چند برسوں سے ناتھورام گوڈسے کو خراج تحسین پیش کئے جانے اور اس کی تعریف و ستائش کئے جانے سے متعلق ٹوئٹس کی تعداد میں یقینا بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں آر ایس ایس کے اس وقت کے سربراہ راجیندر سنگھ نے یہ کہتے ہوئے ایک طرح سے گوڈسے کی زبردست ستائش کی تھی کہ گوڈسے کو اکھنڈ بھارت سے گاندھی جی کے قتل کی ترغیب ملی۔ اس کا ارادہ بہت اچھا تھا لیکن اس نے اپنے ارادہ کو عملی شکل دینے کے لئے غلط طریقہ اپنایا (آؤٹ لُک) شائد آج بھی کوئی ہندوستانی یہ فراموش نہیں کیا ہوگا کہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے پارلیمنٹ میں گوڈسے کی تعریف و ستائش میں کیا تبصرہ کیا تھا؟ سادھوی نے کہا تھا کہ ناتھورام گوڈسے ایک محب وطن ہندوستانی تھا، ہے اور محب وطن ہندوستانی رہے گا۔

امریکہ میں مارٹن لوتھر کنگ کی زیر قیادت افریقی امریکیوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کی خاطر جدوجہد کی گئی۔ مارٹن لوتھر کنگ چاہتے تھے کہ سیاہ فام امریکی باشندوں کے ساتھ مساوات کا مظاہرہ کیا جائے، انہیں انسان سمجھا جائے اور زندگی کے ہر شعبہ میں سفید فاموں کی طرح نمائندگی دی جائے۔ اپنی تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے مارٹن لوتھر کنگ نے گاندھی جی کے پیام عدم تشدد کا سہارا لیا۔ جنوبی افریقہ میں بھی نیلسن منڈیلا نے حکومت کی ظالمانہ اور نسل پرستانہ روش کے خلاف جو تحریک چلائی اس میں بھی گاندھی جی کے پیام عدم تشدد سے متعلق اصولوں کو اپنایا۔

گاندھی جی کے جو منفرد کارنامے تھے ان کا مقصد ہندوستانی شناخت کے دھاگے میں سارے ملک کو متحد کرنا تھا۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف نوآبادیاتی نظام کے خلاف تحریک چلائی اور اس کے لئے عدم تشدد کے اصولوں کا استعمال کیا اور ستیہ گرہ کے ذریعہ ظالم طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ جس وقت وہ اپنی تہذیب کو فروغ دے رہے تھے اپنے کام میں انہوں نے ایک ایسے امر کو بھی شامل کیا جس میں ذات پات اور نسل کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ انہوں نے اس طرح کی ناپسندیدہ چیزوں یا کیفیتوں کو مساوات سے بدلنے کی کوشش کی اور اس کا عکس ہمیں ان کی مخالف چھوت چھات تحریک میں دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے دلتوں کے لئے تحفظات کا مطالبہ کیا اور دستور ہند کے مسودہ کی تیاری سے متعلق کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا نام پیش کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ گاندھی جی ہندوستان میں چھوت چھات کے سخت خلاف تھے۔ نسل پرستی اور ذات پات کے مخالف تھے۔ اس کے برعکس مسلم قوم پرستوں اور ہندو قوم پرستوں نے اپنی کمیونٹیز کے اعلیٰ طبقات کے مفادات کی نگہبانی کی اور ہمیشہ یہی چاہا کہ زمانہ قدیم کی طرح ذات پات اور صنف کے رواج کا احیاء عمل میں آئے۔
ناتھورام گوڈسے جو آر ایس ایس میں تھا اور ایک مرحلہ پر اس کا پرچارک بن گیا وہ ہندو قوم پرستی کے اقدار سے بری طرح بھٹک گیا تھا۔ ہندو قوم پرستوں کے لئے ماضی کی ذات پات میں امتیاز اور عدم مساوات سے متعلق اقدار بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ گوڈسے کی کتاب ’’میں نے گاندھی کو کیوں قتل کیا‘‘ اب بک اسٹالس پر کھلے عام فروخت کی جارہی ہے۔ اس کتاب میں گوڈسے لکھتا ہے کہ گاندھی اس طرح نہیں تھے جس طرح دکھائی دیتے تھے یعنی وہ ان کی دکھائی دینے والی شخصیت کے متضاد تھے۔ ایک ایسے ’’پرتشدد امن پسند‘‘ تھے جنہوں نے اپنے امن کے ذریعہ سچائی اور عدم تشدد کے نام پر ہندوستان کو ناقابل بیان پریشانیوں کا شکار بنا دیا تھا۔ جبکہ رانا پرتاپ، شیواجی اور گرو ہمیشہ ہمارے ہم وطنوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے کیونکہ ان لوگوں نے جو آزادی دلائی وہ ناقابل فراموش ہے اور ان کی یادیں ہندوستانیوں کے دلوں میں چمکتی رہیں گی۔ آج ایسا لگ رہا ہے کہ حقیقی قوم پرستی کے متضاد کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ایک طرف مہاتما گاندھی کی اہم اختراعات جو انہوں نے سماجی تحریک میں متعارف کروائی تھی یعنی عدم تشدد اور ستیہ گرہ ا انہیں وسیع پیمانے پر عالمی برادری تسلیم کررہی ہے لیکن اپنے ہی ملک میں گاندھی جی کی قوم پرستی کا تصور یا نظریہ شدید خطرہ میں ہے۔ موجودہ حکمراں گاندھی جی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس نظریہ کو مضبوط کررہے ہیں جو گاندھی کے قتل کی اصل جڑ ہے جبکہ گوڈسے کو ایک منصوبہ بند انداز میں ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے فروغ دیا جارہا ہے۔ لیکن گوڈسے کے نظریات کی اصل تنظیم آر ایس ایس خود کو گوڈسے سے دور رکھنے کی تمام تر کوششیں کررہی ہے حالانکہ گوڈسے آر ایس ایس کا ایک تربیت یافتہ پرچکارک تھا اور آر ایس ایس میں ہر کسی کو یوں ہی پرچارک نہیں بنایا جاتا۔