ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کی آبائی ریاست گجرات میں یکم اور 5 ڈسمبر کو دو مراحل میں ووٹ ڈالے جائیں گے ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کل انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ ویسے تو اس شیڈول کے پہلے ہی اعلان کی امید کی جا رہی تھی جب ہماچل پردیش اسمبلی کے شیڈول کا اعلان کیا گیا تھا ۔ تاہم گجرات کیلئے کچھ اور وقت لے کر کمیشن نے شیڈول کا اعلان کردیا ہے ۔ اب تمام سیاسی جماعتوں کی انتخابی تیاریوں میں مزید تیزی پیدا ہوگی ۔ ویسے بھی بی جے پی کی جانب سے اپنی تیاریاں پہلے ہی سے شروع کردی گئی تھیںاور اپنے حواریوں کو بھی میدان میں چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ وہ ماحول پیدا کرسکیں اور ہندو ۔ مسلم تفریق پیدا کرتے ہوئے بی جے پی کیلئے حالات سازگار کئے جاسکیں۔ گجرات وہ ریاست ہے جہاں بی جے پی گذشتہ تقریبا ڈھائی دہوں سے اقتدار پر ہے ۔ گذشتہ انتخابات میں بی جے پی بڑی مشکل سے اپنا اقتدار بچا پائی تھی ۔ کانگریس نے اس وقت کے صدر راہول گاندھی کی قیادت میں زبردست مقابلہ کیا تھا اور جہاں بی جے پی نے 150 نشستوں کے نشانہ کے ساتھ مقابلہ کا آغاز کیا تھا وہیں بی جے پی 100 کا ہندسہ بھی پار نہیں کرپائی تھی ۔ صورتحال اور بھی مختلف ہوتی اگر کچھ مفاد پرست اور بی جے پی کے آلہ کار میدان میں اتر کر کانگریس کا راستہ روکنے کی سازشیں نہیں کرتے ۔ انتخابات کے بعد جب بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا تھا کانگریس کے کچھ ارکان اسمبلی ضرور بی جے پی میں شامل ہوئے تھے اور کانگریس کی عددی طاقت میں قدرے کمی آئی تھی ۔ تاہم اس بار کیا صورتحال پیدا ہوگی اس کا اندازہ انتخابی مہم کے باضابطہ آغاز کے بعد ہی ہوگا ۔ کمیشن نے اپنے طور پر شیڈول کا اعلان تو کردیا ہے تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کے انتخاب اور پھر انتخابی مہم کی حکمت عملی کا تعین کرتے ہوئے جب عوام کے درمیان یہ لوگ پہونچیں گے تب عوام کے موڈ کا اندازہ زیادہ موثر ڈھنگ سے لگایا جاسکے گا ۔ بی جے پی ضروریہ دعوی کر رہی ہے کہ اس بار بھی انتخابات میں اسے عوام کی تائید حاصل ہوسکتی ہے ۔
جیسے بارش میں مینڈک باہر آتے ہیں ویسے ہی انتخابات سے قبل سیاسی مینڈک بھی باہر آنے لگے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گجرات میں اصل مقابلہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ہی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس پارٹی کس حد تک ریاست میں عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔ تاہم یہ بھی ایک پہلو ہے کہ بی جے پی نے اپنے آلہ کار میدان میں اتار دئے ہیں۔ ان کارندوں کے ذریعہ بی جے پی مخالف حکومت ووٹوں کی تقسیم کروانا چاہتی ہے اور اس کے پاس ایسا کرنے کے تمام وسائل بھی موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کے جو آلہ کار ہیں وہ بی جے پی کے مخالف ہونے کا ناٹک کرتے ہوئے میدان میںا تر رہے ہیں اور ان کا واحد مقصد یہ ہے کہ حکومت کے خلاف جانے والے جو ووٹ ہیں ان کی تقسیم کو یقینی بنایا جاسکے کیونکہ اگر تمام حکومت مخالف ووٹ اگر کانگریس کے حق میں جاتے ہیں تو بی جے پی کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اور بی جے پی کی شکست کے آثار بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی کسی بھی قیمت پر گجرات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ آئندہ عام انتخابات کیلئے بھی اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے ۔ ایسے میں اگر بی جے پی کو خود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی آبائی ریاست میں شکست ہوتی ہے تو اس کے اثرات سارے ملک پر پڑ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی گجرات میں کسی بھی قیمت پر کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے اور اسی لئے اس نے اپنے آلہ کار بہت پہلے ہی سے میدان میں چھوڑ دئے ہیں۔
گجرات اسمبلی انتخابات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے نتائج آئندہ مہینوں میں کچھ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے علاوہ آئندہ عام انتخابات کے نتائج پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں بی جے پی ان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کامیابی کیلئے ہر ہتھکنڈہ اختیار کرسکتی ہے ۔ خاص طور پر اس لئے بھی کیونکہ یہ مودی اور امیت شاہ کی آبائی ریاست ہے ۔ ایسے میں جو جماعتیں واقعی بی جے پی کی مخالف ہیں اور محض دکھاوا نہیں کر رہی ہیں انہیں پوری فہم و فراست کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے ۔ سکیولر طاقتوں کے استحکام کو اولین ترجیح دیتے ہوئے عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔