گلشن میں کہیں فصل بہار آئی ہے شائد
پھر خارمغیلاں کی چبھن جاگ اُٹھی ہے
مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کی انتخابی مہم کا آج شام اختتام عمل میں آیا ۔ ملک بھر میں بلدیہ حیدرآباد کو اس بار کی انتخابی مہم کے نتیجہ میں جو شہرت حاصل ہوئی ہے وہ منفرد کہی جاسکتی ہے ۔ ویسے تو حیدرآباد کی ساری دنیا میں پہچان ہے اور ملک بھر میں اس کی ایک مخصوص اور منفرد شناخت بھی پائی جاتی ہے ۔ تاہم اس بار کے بلدی انتخابات کیلئے جو مہم چلائی گئی ہے اس نے ایسا لگتا ہے کہ سارے حالات ہی کو بدل کر رکھ دیا ہے ۔ کسی بھی مجلس مقامی کے انتخابات میں مہم مقامی مسائل اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ارد گرد گھومتی ہے ۔ تاہم اس بار انتخابی مہم کو بالکل ہی الگ رخ پر موڑ دیا گیا تھا اور اصل اور بنیادی مسائل سے توجہ ہٹاتے ہوئے جملہ بازیوں ‘ اشتعال انگیز نعروں اور فرقہ پرستی کا رنگ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے ۔ بی جے پی نے اس بار بلدیہ حیدرآباد کے انتخابات کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے تلنگانہ میں اپنے سیاسی قدم جمانے کی کوشش کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ دوباک میں ہوئے ضمنی انتخاب میں بی جے پی کی کامیابی نے اس کے حوصلے بلند کردئے ہیںاور اسے تلنگانہ میں اپنے لئے ایک موقع نظر آنے لگا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے گریٹر حیدرآباد کی انتخابی مہم کو اپنے انداز میں آگے بڑھایا ہے اور ایک مخصوص کٹر ہندوتوا پہچان رکھنے والے قائدین کو انتخابی مہم میں جھونکتے ہوئے مہم کا انداز ہی بدل کر رکھ دیا ہے ۔ بی جے پی اس طرح کی اشتعال انگیزی اور فرقہ پرستی کے ذریعہ بلدیہ حیدرآباد میں اپنے قدم جمانا چاہتی ہے اور اس کا یہ احساس ہے کہ بلدیہ حیدرآباد میں موقع ملنے پر اسے تلنگانہ بھر میں اپنے سیاسی قدم پھیلانے کا موقع مل سکتا ہے ۔ اس کے کارکنوں اور کیڈر میں جوش و خروش پیدا کرتے ہوئے سارے تلنگانہ میں عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ اسی وجہ سے بی جے پی نے ہندو ۔ مسلم کی سیاست کو حیدرآباد میں بھی پوری شدت سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ حیدرآباد ویسے بھی ہمیشہ سے بی جے پی کے نشانہ پر رہا ہے تاہم بی جے پی کبھی یہاں اپنے قدم جمانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے ۔
حیدرآباد محبتوں کا شہر ہے ۔ امن کا گہوارہ رہا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ وقفہ وقفہ سے یہاں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ یہاں کے امن کو درہم برہم کرنے اور شہر کو بدنام اور رسواء کرنے میں بھی بی جے پی نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے ۔ کبھی شہر کو آئی ایس آئی کا مرکز قرار دیا گیا تو کبھی روہنگیائی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ پرانے شہر کو منی پاکستان قرار دیا گیا تو کبھی پرانے شہر پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے جیسے غیر ذمہ دارانہ بیانات دئے گئے۔ ان سارے بیانات اور کوششوں کا واحد مقصد یہی ہے کہ شہر میں بی جے پی کے قدم جمائے جاسکیں۔ شہر کے امن کو درہم برہم کرتے ہوئے اپنے لئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ مسلمانوں کو انتشار میں برپا کرتے ہوئے اکثریتی فرقہ کے ووٹ اپنے حق میں ہموار کئے جاسکیں۔ تاہم ان ساری کوششوں میں بی جے پی اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار یہ کوشش پوری شدت کے ساتھ کی گئی ہے ۔ اسی لئے پرکاش جاوڈیکر ‘ اسمرتی ایرانی ‘ جے پی نڈا ‘ امیت شاہ اور آدتیہ ناتھ جیسے قائدین کو حیدرآباد میں تفریح کیلئے طلب کیا گیا جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں یہاں زہر افشانی کی ہے ۔ بیرون شہر اور بیرون ریاست سے آنے والے ہر بی جے پی لیڈر نے شہر کے امن کو درہم برہم کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور اشتعال انگیز بیانات دیتے ہوئے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔
بلدی انتخابات میں عوام کے بنیادی مسائل اور ان کی ضروریات اور بلدی سہولتوں کو کہیں پس پشت ڈال دیا گیا ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں کوئی قومی سطح کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں شہر کے عوام نے جس صبر و تحمل سے کام لیا اور اشتعال انگیزیوں کا شکار ہوئے بغیر اپنے شہر کی مذہبی رواداری کی روایات کو برقرار رکھا ہے وہ بے مثال ہے اور یہی امید کی جاسکتی ہے کہ انتخابات کے دوران بھی عوام جذباتی نعروں اور اشتعال انگیزیوں کا شکار ہوئے بغیر اپنے کام کرنے والی جماعتوں اور امیدواروں کو کامیاب بناتے ہوئے فرقہ پرستوں کو ناکام بنائیں گے ۔ عوام کے پاس اپنے ووٹ کا ہتھیار ہے جس کے ذریعہ وہ شہر کی حفاظت کرسکتے ہیں اور یہاں کے امن و امان کو برقرار رکھنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔
