قاری محمد مبشر احمد رضوی القادری
یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ رسولِ کائنات ‘ فخر موجودات سیدنا محمد عربی ﷺ کی حیاتِ ظاہری سے ہی منافقین اسلام نے ذاتِ رسالت کے انوار و فیوض کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی ناپاک کوششیں کیں لیکن اللہ رب العزت نے اُس نورِ مصطفی کی حفاظت کا انتظام فرمایا ۔ یہ بد نصیبی کی بات ہے کہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے کبھی قرآن عظیم اور کبھی صاحبِ قرآن ﷺ کی ذاتِ اقدس میں دریدہ دہنی اور گستاخی کو مخالفوںنے اپنا معمول بنا لیا ہے جب کہ رسول کریم ﷺ کی گستاخی کفر ہے اور ایساشخص واجب القتل ہے۔ مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ قرآن اور صاحبِ قرآن ﷺ کی شانِ اقدس میں بے ادبی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ عذابِ الٰہی میں مبتلا فرماکر انھیں کیفرو کردار تک پہنچاتا ہے۔
کُفارِ قریش کے پانچ سردار (۱) عاص بن وائل سہمی (۲ ) اَسود بن مُطّلب (۳) اَسود بن عبد یغُوث (۴) حارث بن قیس (۵) ولید بن مُغیرہ یہ لوگ نبی کریم ﷺ کو بہت زیادہ ایذائیں دیتے۔ اور آپ کا بیحد تمسخُر اور مذاق اُڑایا کرتے تھے۔ ایک روز حضور اکرم ﷺ مسجد حرام میں تشریف لائے تو یہ پانچوں خُبثاء بھی پیچھے پیچھے آئے اورحسب عادت تمسخُر اور طعن و تشنیع کے الفاظ بکنے لگے۔اسی حال میں حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور انھوں نے ولید بن مُغیرہ کی پنڈلی کی طرف اور عاص بن وائل سمہی کے پاؤں کے تلوے کی طرف اور اسود بن مُطّلب کی آنکھوں کی طرف اور اسود بن عبد یغوث کے پیٹ کی طرف اورحارث بن قیس کے سر کی طرف اشارہ فرمایا اور یہ کہاکہ میں ان لوگوں کے شرکو دفع کروں گا چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں یہ پانچوں دُشمنانِ رسول طرح طرح کی بلاؤں میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوگئے۔
سلطان نور الدین زنگی کے عہد حکومت میں عیسائی طاقتیں اسلام کے خلاف منظم ہورہی تھیں اور ان کے سازشی اذہان طرح طرح کی پُر فریب راہیں تلاش کر رہے تھے ‘ تاکہ مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرسکیں۔ اسی سلسلہ میں اپنے دو ہوشیار وزیر اور عیار ایجنٹوں کو انھوں نے مغربی حاجی کے بھیس میں ۵۵۷ ھ میں مدینہ طیبہ بھیجا تا کہ وہ مسلمانوں کے مرکز عقیدت ’’روضہ رسول ‘‘ کو اپنے ناپاک منصوبہ کا نشانہ بنائیں۔ ان دونوں کے پاس مال در زکی فراوانی تھی انھوں نے اہل مدینہ کو انعام و اکرام سے خوش کردیا اور روضہ رسول کے قریب ایک مکان لے کر رہنے لگے قبر رسول ﷺ تک پہنچنے کے لئے رات بھر وہ اپنے کمرے میں سرنگ کھود تے اورپورا دن تسبیح و نماز میں گذارتے اور جنت البقیع کی زیارت کے بہانے ساری مٹی تھیلے میں بھر کر پھینک آتے۔
ایک طویل زمانہ کے بعد سلطان نور الدین زنگی خواب میں سردار کائنات ﷺ کے دیدار سے مشرف ہوئے ایک ہی شب میں تین بار انھوں نے دیکھا کہ حضور ﷺ ان دونوں مغربی حاجیوں کی طرف غضب آلود نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اور سلطان کو حکم دے رہے ہیں کہ دیکھو’’یہ مجھے تنگ کرنا چاہ ر ہے ہیں انھیں دفع کرو‘‘۔
سلطان نے اپنے وزیرجمال الدین موصلی کو بلاکر سارا ماجرا سنایا‘ اس نے رائے دی کہ مدینہ منورہ میںکوئی غیر معمولی بات ہوگئی ہے‘ آپ فوراًمصر سے روانہ ہو جائیں اسی وقت انہوں نے رخت سفر باندھا اور مدینہ طیبہ پہنچے‘ سرکار دوعالم ﷺ کی بارگاہ میںحاضری دی اور صلٰوۃ سلام کے نذرانے پیش کئے۔
وزیر نے تفتیش کے آغاز میں سلطان سے پوچھا کہ کیا آپ ان دونوں حاجیوں کو پہچان لیں گے جنھیں خواب میں دکھایا گیا ہے ‘ سلطان نے کہا کہ ہاں ‘ اس کے بعدوزیر نے عام منادی کرادی کہ سب لوگ فلاں جگہ اکٹھا ہوجائیں اور سلطان کے انعام و اکرام سے فیضیاب ہوںتمام باشندگان مدینہ جمع ہو کر سلطان کی بخشش و عطا سے سیراب ہونے لگے مگر وہ دونوںحاجی کہیںنظر نہ آئے بڑی مشکل سے پتہ چلا کہ وہ خود ہی بڑے فیاض اورسخی داتا ہیں اور کہیں آنے جانے سے بڑا اجتناب و احتراز کرتے ہیں سلطان نے ان دونوںکو حاضر کرنے کا حکم دیا جب وہ قریب پہنچے تواس نے پہلی ہی نظر میں انھیں پہچان لیا۔ وہ اتنے بھولے بھالے اور سیدھے سادھے بزرگ نظر آرہے تھے کہ شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ جب ان دونوں کی رہائش گاہ کی تلاشی شروع ہوئی تو صرف کتابیں مشکیزے اور تسبیح کے دانے نظر آئے ‘ مگر جب مصلّٰی اٹھاکر دیکھاگیا تو اس کے
نیچے بوریا اور پتھر نظر آئے اس کے بعد جب پتھر اٹھایا گیا تو ایک لمبی سرنگ نظر آئی یہ منظر دیکھ کر لوگوں کے ہوش و حواس اُڑگئے اور سب حیرت زدہ ہوگئے۔ باز پرس اور بڑی تفتیش کے بعد انکی شیطانی سازش کا انکشاف ہوا ۔بہت سازومال دیکر عیسائیوں نے انہیں قبر رسول ﷺ کے ساتھ بے حرمتی کرنے کیلئے بھیجاتھا سلطان بیحد رویا اور ان دونو ں ظالموں کو شارع عام پر موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ جس رات قبر شریف کے قریب وہ دونوں پہنچے تھے ایک سخت زلزلہ اور خوفناک طوفان اُٹھا تھا جس سے سارے اہل مدینہ دہل گئے تھے آئندہ خطرات سے بچنے کیلئے سلطان نے روضۂ مقدسہ کے گرد گہری خندق کھود کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کھڑی کردی تاکہ پھر کوئی شر پسند اور گستاخ شخص ایسی کوئی جرأت نہ کرسکے(جذب القلوب صفحہ ۱۲۴ مصنفہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی و عمدۃ الاخبار)
حضرت شیخ شمس الدین صواب علیہ الرحمہ جس وقت روزہ مقدسہ کے خادم تھے اُسی دوران رات میں کچھ بیایمانوں نے حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق ؓ کے اجسادِ مبارکہ کو حلب لیجانے کی سازش کی تو اُس وقت مدینہ طیبہ کا امیر نہایت بے حس اور دنیا دار شخص تھا اُس نے مال وزر کی لالچ میں انہیں خفیہ طور پر اجازت دے دی جب وہ داخل ہوئے تو حضرت صواب نے اُنہیں شمار کرنا شروع کیا وہ چالیس آدمی تھے ابھی حجرۂ مبارکہ کے قریب بھی نہ پہنچ پائے کہ زمین پٹھی اور سب کہ سب اندر گھس گئے اور پھر آج تک ان میں سے کسی کا کچھ پتھ نہ چلا یہ واقعہ تاریخ میں (واقعہ خسف ) کے نام سے مشہور ہے (الریاض النصرہ)
حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ طعن و تمسخر‘ ان کی ایذا سانی اور توہین و بے ادبی وہ جُرم عظیم ہے کہ خدائے قہّار و جبّار کا قہر و غضب ان مجرموں کو کبھی معاف نہیں فرماتا۔ ایسے لوگوں کو کبھی زلزلوں کے جھٹکوں سے ان کی آبادیوں پر پتھر برساکر ان کو برباد کردیا۔ کچھ ذِلّت کے ساتھ قتل ہو گئے۔ کچھ طرح طرح کے امراض میں مبتلا ہوکر جہنم رسید ہوئے۔
اِس زمانے میں بھی جو لوگ بارگاہ نبوت میں گستاخیاں اور بے ادبیاں کرتے رہتے ہیں وہ کان کھول کر سُن لیں کہ اُن کے ایمان کی دولت تو غارت ہوہی چکی ہے۔ اب انشا اللہ تعالیٰ وہ کسی نہ کسی عذاب الٰہی میں گرفتار ہوکر ذلّت کی موت مرجائیں گے اور دُنیا اُن کے منحوس وجود سے پاک ہوجائے گی۔ سُن لو۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کبھی ہرگز غلط نہیں ہوسکتااور وہ عذابِ الٰہی کی مار سے بچنا چاہتے ہو تو اس کی فقط ایک ہی شرت ہے کہ صدق دلِ سے توبہ کر کے رسول اکرم ﷺ کی محبت و عظمت سے اپنے دلوں کو معمور و آباد کرکے اپنے قول و فعل اور اعتقاد سے تعظیم و تو قیر نبوی کو اپنا دین شعار بنالئں پھر تم دیکھئیں کہ ہر قدم پر تمھارے اوپر خداوند قدوس کی رحمتیں کیسی نازل ہوں گی اور خاتمہ باالخیر کی کرامتوں سے تم سرفراز ہوکر دونوں جہاں کی سعادتوں سے بہرہ مند ہوجاؤگے۔ واقعاتِ مذکورہ سے ہمیں اس بات کا پتہ چلا ہے کہ ربِ کائنات جل جلالہٗ اپنے انبیائے کرام اور صالحین عظام کی حفاظت کا محافظ ہے۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا ایں دم
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی