گستاخانہ کارٹونس اور قانون توہین رسالت ؐ

   

رام پنیانی

فرانس میں روسی نژاد 18 سالہ مسلم طالب علم کے ہاتھوں ایک اسکول ٹیچر سموئل پیاٹی کے قتل سے ساری دنیا میں نفرت کا ایک پنڈورا کھل گیا اس واقعہ کے چند دن بعد فرانسیسی شہرنائس میں مزید تین افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ فرانس کے خلاف بعض ممالک جیسے بنگلہ دیش میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اور بے شمار مسلم ملکوں میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

ایک طرف فرانسیسی صدر مقتول ٹیچر کی نشاندہی کرتے ہوئے سیاسی اسلام کے خلاف لڑائی کا عہد کرتے ہیں دوسری طرف صدر ترکی رجب طیب اردغان نے فرانسیسی صدر کے خلاف اہانت آمیز ریمارکس کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں فرانس نے ترکی میں متعین اپنے سفیر کو واپس طلب کرلیا۔ ویسے بھی فرانسیسی مصنوعات کا کئی ملکوں میں بائیکاٹ کیا جارہا ہے اور ایسے کئی مسلم ملک ہیں جہاں فرانسیسی صدر کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں ایمانول مائیکرون کے خلاف احتجاج کئے جارہے ہیں۔
جہاں تک سموئل پیاٹی کا سرقلم کئے جانے کا سوال ہے اس کے بارے میں جو رپورٹس ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ وہ جماعت یا کلاسیس میں آزادی اظہار خیال کے بارے میں پڑھا رہا تھا۔ اور مثال کے طور پر چارلی ہیبڈو میں شائع کارٹونس استعمال کررہا تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا جب چارلی ہیبڈو کے کارٹونٹس کے قتل سے متعلق مقدمہ کی سماعت عدالتوں میں شروع ہو رہی تھی۔ (پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخانہ خاکہ بنانے والے کارٹونسٹس کو سال 2015 میں قتل کیا گیا) اس تناظر میں ہی چارلی ہیبڈو نے جان بوجھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ کارٹونس کی دوبارہ اشاعت عمل میں لائی اس طرح وہ کارٹونس، دہشت گردی سے اسلام کو جوڑنے کے لئے استعمال کئے گئے۔ اسی طرح جس طرح 9/11 کے بعد ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح گھڑی گئی اور امریکی میڈیا نے اس اصطلاح کو لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ آپ کو بتادوں کہ چارلی ہیبڈو نے جان بوجھ کر دوبارہ گستاخانہ کارٹونس کی اشاعت عمل میں لائی تب اس کے دفتر پر حملہ کیا گیا جس میں تقریباً 12 کارٹونسٹس ہلاک ہوگئے اس حملہ کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی۔ کسی کو بھی یہ بات یقینا یاد ہوگی کہ القاعدہ کو خود ابتداء میں پاکستان کے بعض مدارس میں فروغ دیا گیا جہاں سلفی ویژن پڑھا جاتا تھا جبکہ اس کا نصاب واشنگٹن میں تیار کیا گیا۔ آپ کو یہ جان کر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ امریکہ نے مستقبل کے القاعدہ کے کارکنوں کے ذہنوں میں خاص چیزیں بٹھانے اور اپنی مرضی کے مطابق عقیدہ کا حامل انہیں بنانے کے لئے 8000 ملین ڈالرس خرچ کرڈالے جبکہ امریکہ نے اس تنظیم کو 7000 ٹن اسلحہ بھی سربراہ کیا۔

گزشتہ چند دہوں کے دوران عالمی منظر بالکل بدل گیا ہے اور خاص طور پر مغربی ایشیاء میں دہشت گردی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے یہ دراصل اس علاقہ میں موجود تیل کے ذخائر پر کنٹرول کرنے والی سیاست کا نتیجہ ہے اس طرح مسلمانوں میں انتہا پسندی کے رجحانات زور پکڑتے دیکھے گئے جس کے ساتھ ہی کئی ملکوں نے توہین مذہب و توہین رسالت کی بیخ کنی کے قوانین متعارف کروائے اور بعض مسلم ملکوں نے توہین رسالت کی سزا موت قرار دے دی۔ ایسے ملکوں میں پاکستان، صومالیہ، افغانستان، ایران، سعودی عرب اور نائیجیریا شامل ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں توہین رسالت کے مرتکب کو سزائے موت دی جاتی ہے پاکستان میں اسلامیانے کے عمل میں شدت پیدا کرنے کے بعد ضیا الحق کی حکومت نے یہ سزا متعارف کروائی۔ اس وقت ان میں سے کئی ملکوں میں اسلام کے نام پر انتہا پسندی بھی بڑھتی جارہی تھی اور وہ بڑی تیزی سے انتہا پسندی کی جانب منتقل ہو رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ آسیہ بی بی کے کیس میں کیا اور کیسے ہوا اسے توہین رسالت کے قانون میں پھنسایا گیا اور پاکستانی صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تشیر نے جب آسیہ بی بی سے ملاقات کی اور اس قانون کے خلاف اپنا احتجاج درج کروایا تب انہیں موت کے گھاٹ اتاردیا گیا اور سلمان تشیر کے قاتل کو مسلمانوں کے ایک بڑے حلقہ نے ہیرو بنا دیا اور ان کے ساتھ ایک ہیرو جیسا سلوک روا رکھا گیا۔
اسلامی مورخین ہمیں بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے دو صدیوں بعد تک بھی توہین یا توہین رسالت کا ایسا کوئی قانون نہیں تھا بلکہ خلافت عباسیہ کے دوران 9 ویں صدی کے آغاز میں اس طرح کا قانون منظر عام پر آیا۔ اس کا مقصد دراصل اقتدار پر خلافت عباسیہ کی گرفت کو مضبوط کرنا تھا اسی طرح حالیہ وقتوں میں پاکستان کے فوجی حکمراں ضیاء الحق نے اپنی عنان حکمرانی کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے توہین رسالت کا قانون متعارف کروایا جس کا مقصد صرف مملکت اسلامی کے بھیس میں اپنی حکمرانی اور حکومت کو قانونی طور پر مضبوط و مستحکم کرنا تھا اور قانونی حیثیت دلانا تھا۔ یہ دراصل فوجی آمریت کی جانب سے معاشرہ پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کی ایک کوشش تھی۔ اس کے ذریعہ یہ کیا گیا کہ حکمراں طبقہ کے نظریہ کی مخالفت کرنے والے مسلم و غیر مسلم تمام مخالفین کو توہین مذہب کا مرتکب قرار دے کر قتل کردیا جائے یا ان کی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کردی جائے۔ پاکستان میں اس طرح کے قانون کے زیادہ تر شکار وہ طبقے رہے جن کو مسلمان ماننے سے انکار کردیا گیا۔ عیسائیوں اور ہندووں کو بھی اس قانون کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا۔ 25 اکتوبر کو اس موضوع پر ایک وبینار کا انعقاد عمل میں آیا جس کا اہتمام مسلم فار سیکولر ڈیموکریسی کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اس میں اسکالر زینت شوکت علی نے قرآن کے حوالوں سے بتایا گیا کہ اس مقدس کتاب میں کسی کے خلاف تشدد کرنے یا پرتشدد رویہ اپنانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ قرآن میں صاف طور پر کہا ہے کہ تمہارا دین تمہارے ساتھ ہمارا دین ہمارے ساتھ۔

ویبینار کے ماڈریٹر جاوید آنند کا کہنا تھا کہ ہم یہاں اس طرح کے واقعات کی مذمت کے لئے جمع ہوئے ہیں اور کسی پر بھی ظلم کو منصفانہ نہیں کہا جاسکتا۔ میرے ایک دوست اصغر علی انجینئر مرحوم اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی سے انتقام نہیں لیا اور نہ ہی کسی کو انتقام لینے کے لئے کہا۔ اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بکواس بھی کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے انتقام نہیں لیتے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بتایا تھا کہ پیغمبر اسلام ؐ کی حیات مبارکہ میں ایک ضعیف خاتون جب بھی آپ اس کے گھر کے قریب سے گذرتے آپ ؐ کے اوپر کچرا پھینک دیتی۔ ایک دن آپ نے اسے اپنے مقام پر نہیں پایا۔ پیغمبر اسلام ؐ سیدھے اس خاتون کی خیرت دریافت کرنے کے لئے اس کے گھر پہنچ گئے۔ خاتون آپ کو دیکھ کر حیران و پریشان ہوگئی اور جب اسے پتہ چلا کہ آپؐ اس کی عیادت کے لئے تشریف لائے ہیں تو وہ بہت شرمندہ ہوئی اور پھر اس نے دامن اسلام میں پناہ لے لی۔ دنیا بھر میں اس طرح کے جو واقعات پیش آرہے ہیں اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سازش دکھائی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ایران، افغانستان، عراق اور مغربی ایشیا کے مختلف ممالک کے نام لئے جاسکتے ہیں، جہاں پر ایسے گروپس پائے جاتے ہیں لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ امریکہ نے جان بوجھ کر انتہا پسند گروپوں کو فروغ دینا شروع کیا۔ اس نے افغانستان میں مجاہدین، طالبان اور القاعدہ کے ارکان کو تربیت بھی دی اور پھر اس نے مغربی ایشیا میں حد سے زیادہ مداخلت کا سلسلہ جاری رکھا، افغانستان اور عراق وغیرہ پر حملے کئے تب انہی گروپس نے امریکہ کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔