گستاخِ رسول ؐکی سزا اور اُس کا انجام

   

شیخ احمد حسین
قرآنی نصوص ، احادیث مبارکہ ، عمل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین فتاویٰ ائمہ اور اجماع امت سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے کہ گستاخ رسول ﷺکی سزا قتل ہے اس کی معافی کو قبول نہ کیا جائے ۔ یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی شانِ اقدس میں نازیبا کلمات کہتے چلے آ رہے ہیں ۔ کبھی یہودیہ عورتوں نے آپ ﷺکو گالیاں دیں ، کبھی مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے ۔ کبھی آپ ﷺ کی ہجو میں اشعار پڑھے اور کبھی نازیبا کلمات کہے۔ تو رسول اللہ ﷺنے شان نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل کروا دیا ۔ کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے حب نبی ﷺ میں خود گستاخ رسول ﷺکے جگر کو چیر دیا اور کسی نے نذر مان لی کہ گستاخِ رسول ﷺ کو ضرور قتل کروں گا ۔ کبھی کسی نے یہ عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا رسول اللہ ﷺکا گستاخ۔ اور کبھی کسی نے تمام رشتہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت ﷺ کو خوش دیکھنے کے لئے گستاخ رسول ﷺ اور یہودیوں کے سردار کا سر آپؐ کے سامنے لا کر رکھ دیا ۔ جو گستاخان مسلمانوں کی تلواروں سے بچے رہے اللہ تعالیٰ نے اُنہیں کن عذابوں میں مبتلا کیا اور کس رسوائی کا وہ شکار ہوئے اور کس طرح گستاخ رسول ﷺ کو قبر نے اپنے اندر رکھنے کے بجائے باہر پھینک دیا تا کہ دنیا کیلئے عبرت بن جائے کہ گستاخ رسول ﷺکا انجام کیا ہے انہیں تمام روایات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے یہ اوراق اپنوں اور بیگانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ کبھی آ پ ﷺکی ذات اور بات کا حلیہ نہ بگاڑنا۔ ذات اور بات کا حلیہ بگاڑنے سے امام الانبیاءعلیہ ا لسلام کی شان اقدس میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ آپ اپنی دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھو گے ، رسوائی مقدر بن جائے گی ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو تکلیف دینے والوں کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں : ’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول ؐ کو تکلیف دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘ (سورۃ الاحزاب ) 
یہودیہ عورت کا قتل : چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ایک یہودیہ عورت رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دیا کرتی تھی ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا تو رسول اللہ ﷺنے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا ۔
مشرک گستاخ رسول ﷺکا قتل : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :” مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کو گالی دی تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا میرے اس دشمن کی کون خبر لے گا ؟ تو حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ میں حاضر ہوں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کر دیا ۔ تو رسول اللہ ﷺنے اس کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دیا ۔ “
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ام ولد کا قتل
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ :ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ ﷺکو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا تھا وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ایک رات اس عورت نے رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینا شروع کیں اس نے ایک بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا اور اسے زور سے دبا دیا جس سے وہ مر گئی ۔ صبح اس کا تذکرہ رسول اللہ ِﷺکے پاس کیا گیا تو آپ ﷺنے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا ۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا ۔ جو کچھ کیا ۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے ۔ رسول اللہ ﷺکی یہ بات سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہو گیا ۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبی اکرم ﷺکے سامنے بیٹھ گیا ۔ اس نے آکر کہا ۔ اے اللہ کے رسول ﷺمیں اسے منع کرتا تھا اور وہ آپ ﷺ کو گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی ۔ میں اسے جھڑکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی گزشتہ رات جب وہ آپکو گالیاں دینے لگی تو میں نے بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا میں نے زور سے اسے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی ۔ رسول اللہ ﷺنے ساری گفتگو سننے کے بعد فرمایا تم گواہ رہو اس کا خون ہد رہے ۔
( ابوداود ، الحدود ، باب الحکم فیمن سب النبی ﷺ، نسائی ، تحریم الدم ، باب الحکم فیمن سب النبی ﷺ)