: گستاخِ نبی، دارین کا لعنتی : محبت رسول ؐکے دعوے میں گستاخِ رسول کا عملی بائیکاٹ کریں

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
سردار انبیاء حضور پاک صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم سے محبت وعقیدت، مسلمانوں کے ایمان کا بنیادی حصہ ہے۔ اور کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا، جب تک کہ رسول اکرم ﷺ کو تمام رشتوں سے بڑھ کر محبوب و مقرب جانا نہ جائے۔ جیسا کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک اسے رسول اکرم ﷺ ماں باپ، اولاد اور سب سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجائیں‘‘۔ (صحیح بخاری) پس یہی مسلمانوں کا ابتداء ہی سے عقیدہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ سے محبت و عقیدت کے بغیر ایمان کا دعوی باطل اور غلط ہے۔ ہردور میں اہل مومن نے آپ ﷺکی شخصیت کے ساتھ تعلق و محبت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔ اور اگر تاریخ کے کسی موڑ پر کسی بھی بدبخت نے آپ ﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے ایسے گستاخانِ رسول کو کیفرکردار تک پہنچایا۔
اب مسلمانوں کو چاہئے کہ یک زبان ہوکر ناموس رسالت ﷺ کے حق میں ایسی آواز بلند کریں، جس سے گستاخانِ رسول ﷺکے دل دہل جائیں۔ اور آئندہ اس قسم کی ناپاک حرکت نہ کریں۔ اور یہ بھی یاد رکھیں! اسلام ہمیں کسی طور پر اجازت نہیں دیتا کہ ناموس رسالت کی تحریک میں جذباتی ہوکر کسی سرکاری و غیرسرکاری اور نجی املاک کو ضائع کریں۔ توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کا انداز،موٹر سائیکلوں، کاروں، بسوں اور دوکانوں کو آگ لگانا، یہ سب ایسی حرکتیں ہیں، جن کی اسلام قطعا ًاجازت نہیں دیتا۔
حضـور ﷺکی شان میں بے ادبی اور گستاخی کرنے والے اپنی ہی دنیا اور آخرت تباہ و برباد کر بیٹھیںگے۔ رسوائی اُن کا مقدر بن جائے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ’’بے شک جو لوگ اللہ اور اسکے رسول کو تکلیف دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں اُن پر لعنت ہے اور انکے لئے ذلت والا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘ (سورۂ احزاب ۵۷)۔ معلوم ہوا کہ حضور رحمت عالم ﷺکی گستاخی کرنے اور آپ کو اذیت و تکلیف دینے والا آخرت میں دردناک عذاب کا مستحق ہے۔ اور دنیا میں بھی اسکا انجام خطرناک ہوتا ہے۔ ایسے بدبخت و گستاخ کو یقیناً اللہ تعالیٰ کے قہر کی مار پڑے گی اور صفحۂ ہستی سے اسکا نام و نشان مٹ جائے گا۔ گستاخِ رسول تباہ ہوئے، ہورہے ہیں اور ہوتے بھی رہیں گے۔ (ان شاء اللہ)
موجودہ حالات میں آپ ﷺکی شان میں گستاخیاں کی جارہی ہیں تو ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کے طرزِزندگی کا ’’عملی بائیکاٹ کریں، یعنی انہوں نے ہم مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا، تو ہم مسلمان شرعی زندگی گزارنا شروع کردیں اور ڈاڑھی، عمامہ اور سنت مصطفی ﷺکے مطابق لباس زیب تن کرکے انکے چہروں اور ملبوسات کا بائیکاٹ کریں‘‘۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جب سرزمینِ عرب پر آفتابِ نبوت طُلوع ہوا تو اس کی نورانیت سےکفر کی تاریکیاں چھٹنے لگیں ، لیکن ابھی تک اِعلانیہ دعوتِ اسلام کا آغاز نہیں ہوا تھا ۔ اسی دوران اللہ رب العزت کا حکم ہوا کہ اے محبوب! آپ اپنے قریبی خاندان والوں کو ڈرائیے تو رسولِ اکرم ﷺ نےتمام قریش کو جمع کرکے انہیں دعوتِ اسلام پیش کی ۔ جب ابو لہب سمیت قریش کے دیگر لوگ آچکے تو مبلغِ اعظم ﷺ نے فرمایا : ’’میں تمہیں قیامت کے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو سب کے سامنے ہے‘‘۔ اس پر ابولہب بکواس کرنے لگا: تم ہمیشہ کے لئے تباہ ہو جاؤ کیا ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا؟ تویہ آیات نازل ہوئیں: ’’تباہ ہوجائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہو ہی گیا اسے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اور نہ جو کمایا‘‘۔دیکھا آپ نے کہ جب گستاخ و بے ادب ابولہب نے تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت ﷺکی بارگاہ میں گستاخانہ جملے بکے تو قہرِ الٰہی جوش میں آیا اور خدائے جبار و قہار نے اس بدبخت کے بھیانک انجام کی غیبی خبر دیتے ہوئے سورۃ اللّہب نازل فرمائی۔یقیناً رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہِ عظیم میں بے ادبی کرنے والے بدبختوں کو نہ چین کی موت نصیب ہوتی ہےاور نہ ہی ان کی ہلاکت پر کسی آنکھ سے آنسو ٹپکتا ہےاور پھر یہ تو صرف دنیا کا عذاب ہے اسی سے جان نہ چھوٹے گی بلکہ مرنے کے بعد قبرکا درد ناک عذاب اور پھر جہنّم کی ہولناک سزاؤں کو ہمیشہ کے لئے جھیلنا ہوگا۔ آئیے ہم عہد کریں کہ رسول اکرم ﷺ سے بے پناہ محبت کریں گے اور اس کا عملی ثبوت بھی دیں گے۔ یقین جانئے کہ اس طرح کی محبت دیکھ کر کبھی بھی کوئی بھی بدبخت گستاخی کی جسارت نہیں کریگا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین