جنگل میں بھیڑئیے کے سواء کون معتبر
جس کے سپرد نقدِ دل و جان کیجئے
گمراہ کون کر رہا ہے؟
شہریت ترمیمی قانون اب ملک میں نافذ العمل ہوجانے کا مرکزی حکومت نے اعلان کیا ہے ۔ حکومت اس قانون پر ملک بھر میں ہو رہے شدید احتجاج کو بھی خاطر میں لانے تیار نہیں ہوئی اور اس نے ضد اورہٹ دھرمی والا رویہ ہی اختیار کیا ہوا ہے ۔ وہ اقتدار کے نشہ کا شکار ہے اور اکثریت کے بھرم میں اس نے عوام کے جذبات و احساسات کو بھی یکسر نظر انداز کردیا ہے بلکہ بزور طاقت اپنے فیصلے نافذ کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے ۔ احتجاج کو نہ صرف نظر انداز کیا جا رہا ہے بلکہ اسے کچلنے کیلئے بھی نت نئے ہتھکنڈے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبا پر لاٹھیاں اور گولیاں برسائی گئیں۔ اترپردیش میں بھی نہ صرف یہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے احتجاج کو کچلنے کی کوشش کی گئی بلکہ احتجاجیوں کی جائیداد و املاک کو ہراج کرنے کا بھی سفاکانہ طریقہ کار اختیار کیا گیا ۔ اس کے بعد وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی جانب سے مسلسل ایک ہی رٹ لگائی جا رہی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں شہریت ترمیمی قانون کے مسئلہ پر عوام کو اور نوجوانوںکو گمراہ کر رہی ہیں۔ حکومت کے ذمہ داران صرف ایک بیان دینے پر اکتفاء کر رہے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون کسی کی شہریت واپس لینے کا نہیں بلکہ شہریت دینے کا قانون ہے اور اس پر نوجوانوں کو گمراہ نہیں ہونا چاہئے ۔ اس قانون میں جو امتیاز برتا گیا ہے اس کا حکومت کی جانب سے کوئی تذکرہ نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی یہ وضاحت کی جا رہی ہے کہ اسی قانون کی بنیاد پر این آر سی لاگو کرتے ہوئے مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے یا ان کے جمہوری اور دستوری حقوق چھیننے کی منصوبہ بندی کی جاچکی ہے ۔ اسی اندیشے کے تحت ملک کے عوام سڑکوں پر اتر آئے ہیں اور احتجاج کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حکومت محض ایک پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنا چاہتی ہے اور اپوزیشن اور طلبا تنظیموں پر عوام کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کی وضاحت اور بیانات پر عوام بھروسہ کرنے کے موقف میں نظر نہیں آتے کیونکہ حکومت نے گذشتہ چھ سال میں جتنے تیقنات دئے ہیں اور جو وعدے کئے تھے ان تمام کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔
جب شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کردیا گیا ہے اور مستقبل میں اس کو این آر سی سے مربوط کیا جائیگا تویہ دھماکو قانون بن جائیگا ۔ اس کے ذریعہ حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی رکھتی ہے ۔ انہیں نہ صرف شہریت سے محروم کیا جائیگا بلکہ ان کی جائیدادیں ہڑپ لی جائیں گی ۔ ان کے دستوری اور جمہوری حقوق کو سلب کرلیا جائیگا ۔ انہیں ایک طرح سے دوسرے درجہ کا شہری بناکر رکھ دیا جائیگا ۔ انہیں کوئی حقوق حاصل نہیں ہونگے ۔ انہیں انسانوں کے زمرہ ہی میں شامل نہیں کیا جائیگا اور ان کے انسانی حقوق کی دہائی دینے والا بھی کوئی نہیں رہ جائیگا ۔ این آر سی کا جہاں تک سوال ہے اس پر بھی حکومت نہ صرف گمراہ کر رہی ہے بلکہ جھوٹ بیانی سے کام لیا جا رہا ہے ۔ ایک طرف وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ابھی ملک گیر سطح پر این آر سی کیلئے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے اور نہ کوئی بات ہوئی ہے جبکہ وزیر داخلہ ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ملک بھر میں این آر سی نافذ ہوگا ۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ 2024 تک کی مہلت طئے کرلی گئی ہے جب این آر سی میں جگہ نہ پانے والوں کو اس ملک سے نکال باہر کیا جائیگا ۔ حکومت وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے متضاد بیانات سے بھی عوام کو اور ملک کے نوجوانوں و طلبا برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خودوزیر اعظم کے بیان سے وزیر داخلہ متضاد بیان دے رہے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں یا دوسرے مخالف گوشوں پر عوام کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔
جہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ ابھی این آر سی کے تعلق سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے تو یہ وضاحت نہیں کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں این آر سی نہیں ہوگا ۔ اس کے برخلاف امیت شاہ بارہا این آر سی نافذ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ عوامی احتجاج کو محسوس کرتے ہوئے ایک بار پھر حکومت نے پینترا بدلا اور این پی آر لاگو کرنے کا اعلان کردیا ۔ یہ در اصل این آر سی کی ہی بدلی ہوئی شکل ہے ۔ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مردم شماری ہی در اصل این پی آر ہوگی ۔ اس طرح ایسے انتہائی حساس نوعیت کے مسائل پر حکومت گمراہ کن بیان بازیاں کر رہی ہے ۔ متضاد بیانی کر رہی ہے ۔ خود ہی سارے ملک کے عوام کو گمراہ کرتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانا چاہتی ہے اور غلط بیانی کو اپنا شیوہ بنالیا ہے ۔