روش کمار
’’گودی میڈیا‘‘ نے ہندو۔ مسلم مباحث کے ذریعہ نہ صرف سماج میں زہر پھیلایا ہے بلکہ سیاست اور صحافت دونوں کے آنگن کو گندہ اور بدنما کردیا ہے۔ آج پہلا موقع نہیں ہے جب سپریم کورٹ نے ہندو ۔ مسلم نفرت پر مبنی مباحث پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران کئی مواقع ایسے آئے جب ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے ہندو ۔ مسلم مباحث اور ٹی وی مباحث کے نظام پر کئی مرتبہ تنقیدیں کی ہیں۔ سخت ریمارکس کئے، ایک بار پھر سے سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ سب سے زیادہ نفرت پر مبنی بیانات و تقاریر میڈیا اور سوشیل میڈیا پر ہیں۔ ہمارا دیش کدھر جارہا ہے۔ انہوں نے صرف نیوز چیانلوں کے مباحث پر ہی تنقید نہیں کی بلکہ یہ بھی کہا کہ سیاسی جماعتیں اس سے پیسہ بناتی ہیں اور ٹی وی چیانلس ایک پلیٹ فارم کی شکل میں کام کررہے ہیں۔ سب سے زیادہ نفرت سے بھرے مباحث ٹی وی چیانلوں اور سوشل میڈیا پر ہورہے بدقسمتی سے ہمارے یہاں ٹی وی سے متعلق کوئی باقاعدہ میکانزم نہیں ہے۔ جبکہ دوسرے ملکوں میں اس طرح کے میکانزم موجود ہیں اور اگر کوئی ٹی وی چیانل اس میکانزم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس پر جرمانے عائد کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں ایک ٹی وی چیانل پر صرف اس لئے بھاری جرمانہ عائد کیا گیا کیونکہ اس نے ریگولیٹری میکانزم کی خلاف ورزی کی تھی۔ بدقسمتی سے ہندوستان میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے جس کے ذریعہ ٹی وی چیانلوں اور اینکروں کا محاسبہ کیا جائے۔ ہاں اینکروں سے کہہ دیا جانا چاہئے کہ اگر آپ کچھ غلط کہیں گے یا غلط کریں گے تو پھر اس کے عواقب نتائج آپ کو ہی بھگتنے پڑیں گے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب آپ کسی پروگرام کے دوران کسی فرد کو کچلتے ہیں۔ جب آپ ٹی وی آن کرتے ہیں تو ہمیں یہی سب کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ گودی میڈیا کا بہت بڑا کارنامہ ہے، ہزاروں کروڑ روپیوں کے اشتہارات مل رہے ہیں اور ان اشتہارات کی بنیاد پر وہ چل رہے ہیں۔ اس طرح رات دن انہیں کثیر سرمایہ کاری بھی حاصل ہورہی ہے۔ میں نے متعدد مرتبہ یہ کہا ہے کہ آپ اس ملک میں ہر چیز پر فخر کرسکتے ہیں لیکن گودی میڈیا پر فخر نہیں کرسکتے کیونکہ گودی میڈیا فخر کے قابل ہی نہیں۔ صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں آپ دنیا میں کسی بھی مقام پر جائیں، آپ کو گودی میڈیا کے باعث شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن اس ملک میں ایک دن ایسا بھی آئے گا جب اس معاشرہ کو یہ سمجھنا ہی پڑے گا کہ ہزاروں کروڑوں روپیوں کے اشتہارات سے لیس گودی میڈیا اور صحافت کے نام پر اینکروں نے اس ملک کی سیاست اور صحافت کو برباد کردیا۔ آج آپ ان کے پیچھے ٹھہر کر جتنی تالیاں بجانا چاہتے ہیں، بجاتے رہئے لیکن ایک دن ظاہر ہوگا کہ گودی میڈیا کچھ اور نہیں عوام کی ہستی کو مٹانے کا ہتھیار ہے۔ جمہوریت کا قاتل ہے۔ ایک دن نہیں ، ایک ہفتہ نہیں، ایک مہینہ نہیں، ایک سال نہیں بلکہ 8 برسوں سے روز یہ تماشہ نیوز چیانلوں پر چل رہا ہے۔ جہاں تک حکومت سے سوال پوچھنے کا معاملہ ہے، سوال پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تو مذہب کے نام پر یہ اینکر دوسرے مذہب کو للکارتے ہیں جس سے یہ وہم پھیلتا ہے کہ وہ صحافت کررہے ہیں، وہ سوال کررہے ہیں جو پوچھنے سے لوگ ڈرتے ہیں، ایسا دکھانا چاہتے ہیں۔ جہاں سوال پوچھنا چاہئے جس سے سوال کیا جانا چاہئے، اس کے سامنے منہ نہیں کھلتا، زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔
جسٹس کے ایم جوزف نے ٹھیک پہنچانا کہ اس نوعیت کے مباحث سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تمام کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ یہ مباحث گودی میڈیا کے اسٹوڈیو میں نہیں ہورہے ہیں۔ یہ آتا کہیں اور سے ہے، کئی طرح سے اس مباحث کیلئے ماحول تیار کیا جاتا ہے۔ اس Debate کو آپ بی جے پی کی سیاست سے الگ نہیں کرسکتے۔ وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر وزیر داخلہ امیت شاہ اور کئی وزیروں کے بیانات مل جائیں گے جس میں بطور خاص ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کپڑوں سے پہچائے جانے کا بیان ہو یا پاکستان میں آتش بازی کا یا پھر گولی مار دینے کا بیان یا شاہین باغ میں کرنٹ لگ جانے کا بیان، ان بیانات کی آڑ میں اور ان کی شہ پاکر گودی میڈیا نے نفرتی موضوعات کا زہر معاشرہ میں پھیلا دیا ہے۔ یہ مباحث دو ترازوں کے درمیان توازن کا نہیں بلکہ اس کی نوعیت واضح طور پر مسلم دشمن اور مسلم مخالف ہے۔ ایک مذہب کے ماننے والوں کو ہر طرح کے حقوق سے محروم کرنے کی سیاست اور حکمت عملی مباحث چلتے رہے، اس لئے جان بوجھ کر اُلٹا سیدھا بولنے والے دونوں طرف سے لائے جاتے ہیں۔
یاد کیجئے ! سال 2020ء میں جب سارا ملک ساری دنیا کورونا کی لپیٹ میں تھے، اس وقت گودی میڈیا نے تبلیغی جماعت کو اپنے مباحث کا موضوع بنایا اور اس پر جعلی یا فرضی سرخیاں صرف اور صرف مباحث کے نام پر لگائی گئیں۔ اس برس کورونا کے پھیلنے کا خوف لوگوں کو کھایا جارہا تھا لیکن گودی میڈیا کے ذریعہ لوگوں کے ذہنوں کو زہر آلود کیا گیا اور تبلیغی جماعت کو نشانہ بانے کے نام پر لوگوں کے ذہنوں میں فرقہ پرستی کا کچرا بھرا گیا۔ ایسا کام صرف گودی میڈیا نے نہیں کیا بلکہ سرکاری عہدیداروں کی پریس کانفرنسوں میں بھی جان بوجھ کر تبلیغی جماعت کو نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت سرکاری ایجنسی اور گودی میڈیا کو الگ کرنا مشکل ہوگیا تھا۔
ایسا ماحول بنایا گیا جس کی آڑ میں تبلیغ سے جڑے کئی لوگوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ 21 اگست 2021ء کو بمبئی ہائیکورٹ کے جسٹس ٹی وی نلاوادے اور جسٹس ایم جی سیولکر پر مشتمل بینچ نے کہا کہ دہلی میں مرکز کے پروگرام میں جو بیرونی شہر آئے تھے، ان کے خلاف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بڑا پروپگنڈہ چلایا گیا اور یہ شبیہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ یہ بیرونی شہری ہندوستان میں کووڈ۔19 پھیلانے کیلئے ذمہ دار ہیں۔ تمام حالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بیرونی شہریوں کو ’’بلی کا بکرا‘‘ بنانے کیلئے چنا گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ بیرونی شہریوں کے خلاف کارروائی کرنے والے ندامت کا اظہار کریں اور اس سے جو نقصان ہوا ہے، اس کی بھرپائی کے اقدامات کریں۔ اب پہلی مرتبہ جسٹس کے ایم جوزف نے صرف نفرت پر مبنی مباحث پر تبصرہ نہیں کیا بلکہ ستمبر 2020ء میں بھی جسٹس ڈی وائی چندراچوڑ اور جسٹس کے ایم جوشی نے ’’سدرشن ٹی وی‘‘ مقدمہ کی سماعت کے دوران سخت ریمارکس کئے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا ٹی وی چیانلوں پر نفرت پھیلانے والے مباحث ہونے چاہئے اور اگر اسے روکا جائے گا تو کیا ہوگا اور یہ کیا کریں گے، اگر سیدھے سیدھے دن رات حکومت کی جھوٹی تعریف کرتے رہیں گے تو عوام سمجھ جائیں گی، اس لئے یہ کرنا مشکل ہوتا ہے، اس لئے مذہب کے نام پر یہ مباحث کئے جاتے ہیں تاکہ یہ دوسرے مذہب کو للکارتے ہوئے نظر آئیں۔ نفرتی مباحث کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں چلتا رہے گا۔
دوسری طرف راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جئے رام رمیش اس یاترا کے بارے میں وقفہ وقفہ سے ٹوئٹ کررہے ہیں۔ ہر روز راہول گاندھی 20 کیلومیٹر سے زائد سفر کررہے ہیں۔ یاترا کے آغاز سے قبل پریس کانفرنس میں راہول گاندھی نے میڈیا کے بارے میں سنگین سوالات اٹھائے۔ ایک اور اہم بات ہے اور وہ ہے ملکیت کا سوال جو دو سال قبل سدرشن ٹی وی کیس میں اُٹھایا گیا تھا۔ جسٹس جوزف نے بھی اب اشتہارات اور ملکیت کا سوال اُٹھایا ہے۔ راہول گاندھی نے اس ضمن میں تفصیلی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نفرت ملک میں گھر گھر پھیلائی جارہی ہے۔ اسی وجہ سے ہم اس نفرت کے خلاف باہر نکلے ہیں ناکہ لوگوں کو متحد کریں اور یہ بتائیں کہ یہ نفرت و عداوت آپ کو اور ملک کو تباہ و برباد کرنے کیلئے پھیلائی جارہی ہے۔ راہول گاندھی کے مطابق میڈیا ، عوام کی آواز حکومت اور دوسرے لوگوں تک پہنچنے نہیں دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ عوام کو میڈیا کی اس خطرناک روش کے بارے میں واقف کروانے کیلئے نکل پڑے ہیں۔ جواب میں میڈیا خود کو بے نقاب کئے جانے کے بعد دن رات راہول گاندھی کی ٹی شرٹ کی باتیں کررہا ہے۔ لوگوں کو بتا رہا ہے کہ اس کی قیمت کیا ہے اور کس برانڈ کا ہے لیکن میڈیا اپوزیشن قائدین کے احتجاجی مظاہروں، ان کے بیانات، ان کی سرگرمیوں سے متعلق کچھ بھی بتانے سے گریز کررہا ہے اور ایک طرح سے گودی میڈیا عوام کی آواز دبا رہا ہے اور راہول گاندھی نے ملکیت کے بارے میں جو سوالات اٹھائے ہیں، ان سوالات سے راہ فرار اختیار کررہا ہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ راہول گاندھی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ میں مصروف ہے۔ نفرتی مباحث پر عدالت عظمیٰ کے ریمارکس اس کی شدید تنقید راہول کے خیالات کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ اب مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر بھی اس مباحث میں شامل ہوگئے ہیں۔ اگرچہ وہ نفرتی مباحث اور ان مباحث کے بھدے طریقوں تک ہی محدود ہیں۔
عدالت عظمیٰ چاہتی ہے کہ حکومت ایک ریگولیٹری سسٹم بنائے۔ عدالت، اشتہارات اور ملکیت پر بھی سوال اٹھائے۔ یہ سوالات ویسے بھی کوئی نئے نہیں ہیں۔ اب جبکہ حکومت کے وزیر خود نفرت پر مبنی مباحث کو مسترد کررہے ہیں، کیا ان کیلئے یہ درست نہیں ہوگا کہ یہ دریافت کریں کہ کیوں حکومت ان چیانلوں کو اشتہارات دے رہی ہے جو اس قسم کے نفرت انگیز مباحث پر مبنی پروگرامس پیش کرتے ہیں۔ اس طرح کے مباحث پچھلے ہفتہ ہی نہیں ہوئے بلکہ اس کا سلسلہ گزشتہ 8 برسوں سے دن رات جاری ہے۔ ایسے میں کیا حکومت کو نہیں لگا کہ یہ تو بہت غلط ہے۔ اس سے معاشرہ میں نفرت فروغ پارہی ہے۔ ایشیا پیسیفک براڈ کاسٹنگ ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ کے 47 ویں اجلاس سے خطاب میں مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر کا کہنا تھا کہ قومی میڈیا کو سب سے بڑا خطرہ نئے دور کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمس سے نہیں بلکہ خود اپنے آپ سے ہے۔ موضوع کو نفرت کیلئے استعمال کرنے سے چیانل کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ اگر کوئی چیانل غلط خبریں پھیلاتا ہے اور ایسے مہمانوں کو مدعو کرتا ہے جو اپی بات منوانے کیلئے چیخ و پکار کرتے ہیں تو اس سے چیانل کی ساکھ متاثر ہونے کے سواء اور کچھ نہیں ہوتا۔ انوراگ ٹھاکر کے مطابق آپ کے مہمان ان کے خیالات جو ٹی وی چیانل پر دکھائے جارہے ہیں، اس سے دیکھنے والے ناظرین کی نظروں میں چیانل کی ساکھ باقی نہیں رہتی۔ اگرچہ ناظرین ہوسکتا ہے کہ آپ کا شو دیکھنے ایک منٹ رُک جائیں لیکن وہ آپ کے اینکر پر ایک لمحہ بھی بھروسہ نہیں کریں گے۔ ساتھ ہی آپ کے چیانل، برانڈ بھی قابل اعتبار نہیں رہے گا اور اس کے خبر کے ذرائع بھی ناقابل اعتبار اور شفافیت سے عاری ہوجائیں گے۔ آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ گودی میڈیا جو کچھ بھی کررہا ہے، اپنے آقاؤں کے اشاروں پر کررہا ہے۔ گودی میڈیا کا حال یہ ہوگیا ہے کہ وہ جسٹس کے ایم جوزف یا انوراگ ٹھاکر کے تبصروں اور ریمارکس پر مباحث نہیں کرسکتا۔ اس کیلئے یہ صورتحال بڑی پیچیدہ ہے۔ بہرحال صرف تبصروں یا ریمارکس اور تنقید سے کام چلنے والا نہیں بلکہ گودی میڈیا کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے جو 8 برسوں سے نہیں دی گئی۔ سب سے اہم کام یہ کرنا چاہئے بلکہ ایسے ٹی وی چیانلوں کو اشتہارات بند کردینے ہوں گے، ورنہ نفرت پھیلانے کا یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا۔ ہم ہندوستانی 8 برسوں سے نفرت کی اس لہر کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔