’’گودی میڈیا‘‘ مسلمانوں کے ’’خون میں رنگا پیسہ ‘‘ کمانے میں مصروف

   

اپوروآنند
پچھلے ہفتہ حکومت اترپردیش نے ایک اخبار میں عجیب و غریب اشتہارات چھپوایا۔ وہ اشتہار اخبار کے صفحہ اول پر شائع کیا گیا جس نے ایک طرح سے مجھے دہلا کر رکھ دیا حالانکہ میں مسلمان نہیں ہوں۔ ایک کٹر ہندو ہوں۔ اُس اشتہار میں دو تصاویر پیش کی گئیں ، پہلی تصویر میں ایک ایسے نوجوان کو دکھایا گیا جس کے گلے میں ایک رومال تھا یعنی اسے دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا جس کی آنکھیں آگ اگل رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں سے غصہ و برہمی کا اظہار ہورہا تھا۔ اس اشتہار نے ہمیں بتایا کہ یہ منظر 2017ء سے پہلے کے دور کا ہے۔ دوسرے فریم میں اسی نوجوان کو ہاتھ جوڑے ، معافی طلب کرتے ہوئے دکھایا گیا اور یہ بتانے کی کوشش بھی کی گئی کہ یہ تبدیلی 2017ء کے بعد آئی جب بھارتیہ جنتا پارٹی کو ریاست میں اقتدار ملا۔ جہاں تک اخبار کے اس اشتہار کا سوال ہے، یہ ریاستی حکومت نے دیا اور ٹیکس دہندگان کی جانب سے ادا کئے جانے والے ٹیکس میں سے دیا ہے، لیکن حکومت نے بڑی ہشیاری اور مکاری کے ساتھ اُسے بی جے پی کا رنگ دیتے ہوئے ایک سیاسی پیام دیا ہے۔ اس طرح کی تصاویر کو سمجھنے کیلئے آپ کو بہت ہی ذہین یا تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ ہر کوئی بہ آسانی ان تصاویر کے پیام کو سمجھ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وزیراعظم نریندر مودی کے بغیر بھی پیش کردہ اس طرح کا اشتہار اپنے پیام کو خود بہ خود سمجھا دیتا ہے۔
بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ مذکورہ اشتہار اترپردیش اور دہلی کے تمام اخبارات نے شائع کیا، جبکہ لکھنؤ کے مختلف حصوں میں اسی طرح کی تصاویر پر مبنی ہورڈنگس نصب کئے گئے۔ اس اشتہاری مہم کو اس تناظر میں دیکھا جانا چاہئے کہ یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے مخالف سی اے اے مظاہرین کے ساتھ کیا کیا؟ ان مظاہرین کے خلاف اترپردیش پولیس نے مقدمات درج کئے تھے اور پھر یوگی ادتیہ ناتھ حکومت نے لکھنؤ کے مختلف مقامات پر ایسے ہورڈنگس نصب کروائے جن پر سی اے اے مخالف مظاہرین کے نام، تصاویر اور ان کے گھر کے پتے اور دیگر تفصیلات درج تھیں۔ یوگی حکومت کی وہ حرکت ایسی تھی کہ جس کی ہندوستان میں مثال نہیں ملتی۔ ہورڈنگس ، سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف تشدد پر اُکسانے کا باعث بنے۔ عدالتوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو خاطی نہیں پایا، اس سے پہلے ہی یوگی حکومت نے ان مظاہرین کو مجرمین قرار دیا جن میں اکثر مسلمان تھے۔ اُن نئے ہورڈنگس کو بھی اب عوام ماضی میں لگائے گئے ہورڈنگس کا تسلسل قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو بدنام کرتے ہوئے اپنا اُلو سیدھا کرنا ہے۔ اس میں کوئی تعجب و حیرت کی بات نہیں کہ ہندی میڈیا یا ذرائع ابلاغ اس طرح کے اشتہارات کی اشاعت عمل میں لا رہا ہے، کیونکہ پچھلے تین دہوں سے ہم نے دیکھا ہے کہ وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات سے قربت اختیار کرتا جارہا ہے۔ پریس کونسل آف انڈیا نے رام جنم بھومی ابھیان میں ہندی میڈیا کے کردار کی تحقیقات کی اور اسے خطرناک حد تک جانبدارانہ پایا۔ ساتھ ہی ہندی میڈیا کو فرقہ وارانہ تشدد کیلئے ذمہ دار قرار دیا۔ ہم نے اس تحریک کے بعد کے برسوں میں بھی اسی رجحان کے تسلسل کو دیکھا ہے۔ مظفر نگر فرقہ وارانہ فسادات یا تشدد کے دوران بھی اکثر اخبارات نے کھلے عام مسلم مخالف موقف اختیار کیا، لیکن انگریزی میڈیا نے بھی بی جے پی کے نظریہ اور سیاسی پیام کو پھیلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا اور اسے آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ، چونکہ یہ بی جے پی ہی ہے جو مرکز اور اترپردیش دونوں میں برسراقتدار ہے، یہی وجہ ہے کہ اخبارات وزیراعظم، چیف منسٹر اور دیگر وزراء کی تمام تقاریر کو شائع کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ اخبارات ان لوگوں کی تقاریر کو بھی شائع کرنا اپنے لئے اعزاز سمجھ رہے ہیں، جن کا حکومت میں بہت کم رول ہے اور جو زیادہ تر نظریاتی اور سیاسی پروپگنڈہ میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ اکثر اپوزیشن پر حملے کرتے ہیں اور اسے بدنام کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی تقاریر اخبارات کے صفحہ اول پر پیش کی جاتی ہے اور اس کیلئے یہ بہانہ تراشا جاتا ہے کہ فلاں پروگرام میں وزیراعظم شامل تھے۔ دوسری طرف وزیراعظم، مرکزی وزیر داخلہ یا چیف منسٹر اترپردیش کے دعوؤں کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے غیرمتنازعہ حقائق ہوں اور کوئی اخبار بی جے پی کے ان قائدین کے دعوؤں کی پول کھول کر رکھ دیتا ہے تو اس کی اہمیت ختم کردی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک انگریزی اخبار نے کیرانا میں کی گئی چیف منسٹر اترپردیش کی تقریر شائع کرتے ہوئے کچھ اس طرح کی سرخی لگائی : ’’کیرانا کے خاندانوں کے تحفظ کیلئے یوگی آدتیہ ناتھ کا وعدہ‘‘ آدتیہ ناتھ ماضی میں کئے گئے ایک غلط دعوے کا اعادہ کررہے تھے کہ ہندو خاندانوں کو مسلمانوں کے دباؤ کے باعث کیرانا سے راہ فرار اختیار کرنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے۔ اسی اخبار نے اس وقت اس دعوے کی تحقیقات کی اور اسے غلط پایا۔ ایسے کئی حقائق پر مبنی رپورٹس ہیں، جس میں کیرانا سے ہندوؤں کے راہ فرار اختیار کرنے سے متعلق دعوؤں کی نفی کرتے ہیں اور انہیں جھوٹا قرار دیتے ہیں، لیکن جب وہی اخبار اس مرتبہ چیف منسٹر کی تقریر کو پورے اہتمام کے ساتھ شائع کرتا ہے، اور ایسے شائع کرتا ہے جیسے چیف منسٹر کے جھوٹے دعوے میں کوئی اچھائی پنہاں ہو۔ بہرحال بعض ایسے ویڈیوز ریاستی حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے جس میں کچھ لوگوں کو چیف منسٹر آدتیہ ناتھ سے کیرانا میں ہندوؤں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک اور اس کیلئے ذمہ داروں کی شکایت کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ جواب میں یوگی ، مقیم کالا نامی ایک ٹولی کے سرغنہ کے بارے میں بھی شکایت سنتے ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ مقیم کالا کو چتراکوٹ جیل میں مار دیا گیا ہے جس کے بعد ہمیں بڑی راحت ملی۔ جواب میں آدتیہ ناتھ یہ کہتے ہوئے سنے جاسکتے ہیں کہ اسے وہی ملا جس کا وہ حقدار تھا۔ ایسے ویڈیوز سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔ جان بوجھ کر ایک مجرم کے نام کا حوالہ دیا گیا تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس مکاری، عیاری و ہشیاری کے ساتھ آدتیہ ناتھ اور بی جے پی لوگوں کو پیام دے رہی ہے۔ ایک اور بی جے پی رکن پارلیمنٹ حکم سنگھ کا دعویٰ کیا کہ 350 ہندو، مجرمین سے ڈر کر کیرانا چھوڑ چکے ہیں۔ 2013ء میں جن شہروں میں فسادات بھڑک اٹھے تھے، کیرانا بھی ان میں سے ایک تھا لیکن ’’انڈین ایکسپریس‘‘ نے جب تحقیقات کی تو حکم سنگھ کا دعویٰ غلط نکلا۔ایک بات ضرور ہے کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے میں بی جے پی کی پارٹنر میڈیا بھی ہے۔ اخبارات میں بی جے پی کی تائید میں لکھا جارہا ہے جبکہ بی جے پی قائدین کی سیاہ کرتوتوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کونسی خبر لی جائے، کونسی نہ لی جائے، اس کے فیصلے میں مدیران کا کوئی رول نہیں رہا۔ ایک بات اور ہے کہ یہ سب کچھ بکے ہوئے قلم کا نتیجہ ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پیسے کا کوئی مذہب اور ضمیر نہیں ہوتا ہے۔ ایک اخبار چلانے کیلئے آپ کو پیسہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن گودی میڈیا کا جہاں تک تعلق ہے، یہ پیسہ مسلمانوں کے خون سے رنگا ہوا ہے۔