انقلاب آئے گا رفتار سے مایوس نہ ہو
بہت آہستہ نہیں ہے جو بہت تیز نہیں
گورنر تلنگانہ ڈاکٹر ٹی سوندرا راجن نے آج تلنگانہ کی نئی اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا ۔ گورنر کو کچھ مدت کے بعد مشترکہ خطاب کیلئے مدعو کیا گیا تھا ۔ سابقہ بی آر ایس حکومت نے ایک سے زائد مواقع پر اسمبلی و کونسل کے اجلاس سے گورنر کے خطاب کو تکنیکی بنیادوں پر روک دیا تھا ۔ اس کیلئے گورنر کے ساتھ جاری کشیدگی کو وجہ بتایا جا رہا تھا ۔ اب جبکہ ریاست میں نئی حکومت قائم ہوئی ہے اور کانگریس برسر اقتدار آئی ہے اس نے گورنر کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے عزائم کا اظہار کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گورنر کو اسمبلی و کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیلئے مدعو کیا گیا ۔ انہیں خطبہ روانہ کیا گیا ۔ کابینہ میں خطبہ کو منظوری دی گئی اور گورنر نے بھی جوابی خیرسگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو خطبہ انہیں روانہ کیا گیا تھا اسی کو مشترکہ اجلاس میںپڑھا ۔ گورنر نے اپنے خطبہ میں جن امور اور مسائل کو شامل کیا ہے وہ کانگریس کے انتخابی منشور میں شامل ہیں۔ گورنر نے ایوان میں اپنے خطبہ کے ذریعہ پیام دیا کہ ریاست میں کانگریس حکومت اپنے تمام ہی انتخابی وعدوں کو پورا کرے گی اور عوام کی بہتری اور فلاح کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جائے گی ۔ اس خطبہ میں پارٹی کے منشور کی طرح سماج کے تقریبا تمام طبقات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ سب سے اہم جو اعلان کیا گیا ہے وہ اندرون ایک سال دو لاکھ سرکاری جائیدادوں پر تقررات کا اعلان ہے ۔ اس کے علاوہ میگا ڈی ایس سی منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے ۔ یہ اہم وعدے ہیں اور ان کی تکمیل کے ذریعہ نوجوانوںاور بیروزگار افراد کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ حکومت کو حالانکہ ابھی چند دن ہی اپنے قیام کے ہوئے ہیں تاہم اس سلسلہ میں فوری حرکت میں آکر بھرتیوں کو یقینی بنانے اور بیروزگاروں کو روزگار فراہم کرنے کے منصوبوں کی تیاری کا عمل شروع کردینا چاہئے ۔ بی آر ایس حکومت سے نوجوانوں کی ناراضگی کی اصل اور بڑی وجہ یہی رہی تھی کہ سرکاری ملازمتوں پر اتنی بھرتیاں نہیںکی گئیں جتنی ہونی چاہئے تھیں۔ اس کے علاوہ وظیفہ پر سبکدوشی کی حد عمر میں جو اضافہ کیا گیا تھا اس سے بھی نوجوان روزگار کے موقع سے محروم ہو رہے تھے ۔
گورنر کے خطبہ کی خاص بات یہ بھی رہی کہ اس کو سیاسی رنگ دینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا ۔ گورنر نے اپنے خطبہ میں کئی مواقع پر سابق بی آر ایس کی چندر شیکھر راؤ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ عموما یہ دیکھا جاتا رہا ہے کہ حکومتیں اپنی اسکیمات اور اپنے کارناموں اور آئندہ کے عزائم کو اپنے خطبہ میں شامل کرتی ہیں انہیں عوام تک پہونچانے کی جدوجہد کرتی ہیں۔ سابقہ حکومتوں یا اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ تاہم اس بار گورنر کے خطبہ میں ہی سابقہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور یہ بھی اعلان کیا گیا کہ کالیشورم پراجیکٹ میں جو مبینہ بے قاعدگیاں ہوئی ہیں ان کی تحقیقات کروائی جائیں گی ۔ یہ در اصل بی آر ایس حکومت گھیرنے کی کوشش ہے اور یہ کوشش گورنر کے خطاب کے ذریعہ کی گئی ہے ۔ کانگریس حکومت نے جس طرح سے گورنر کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے عزائم کا اظہار کیا ہے وہ خوش آئند ہے ۔ حکومت اور گورنر کے مابین بہتر تعلقات وفاقی طرز حکمرانی میں بہت زیادہ ضروری اور اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے ذریعہ ریاست میں ایک خوشگوار ماحول پیدا ہوتا ہے اور سرکاری کام کاج میں کوئی رکاوٹ نہیںہوتی ۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ ملک کی کئی ریاستوں میں گورنرس اور حکومتوں کے مابین اختلافات عام ہوگئے ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بھی ہو رہی ہیں۔ ایسے میں اگر تلنگانہ میں صورتحال کو بہتر بنانے دونوں جانب سے کوشش ہوتی ہے تو یہ ایک اچھی علامت ہی کہی جاسکتی ہے ۔
گورنر کا خطبہ کسی بھی اجلاس کے آغاز سے قبل اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ حکومت اپنی ترجیحات اور پروگرامس کا اس کے ذریعہ اعلان کرتی ہے ۔حکومت اپنے منشور میں کئے گئے وعدوں کو دہراتی ہے اور ان پر عمل آوری کے منصوبوں کا اعلان کرتی ہے ۔ اس روایت کو کچھ عرصہ کی رکاوٹوں کے بعد تلنگانہ میں بحال کیا جانا اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کے ذریعہ اگر سرکاری کام کاج کو کسی رکاوٹ کے بغیر چلانے میں مدد ملتی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہوگی اور حکومت کو بھی ایوان میں اس خطبہ کے ذریعہ سے بھی کئے گئے وعدوں کی تکمیل اور تمام تیقنات پر عمل آوری کیلئے اپنی جانب سے کمر کس لینے کی ضرورت ہے ۔