قسمت ہی سے ملتا ہے اے دوست کسی کو دردِ دل
دل ہی میرا ہنس ہنس کر بس اس کو نبھانا جانے ہے
ریاستی سطح پرجہاںعوامی منتخب حکومتیں عاملہ کے اختیارات کی حامل ہوتی ہیں وہیںگورنر ریاست کا دستوری سربراہ ہوتا ہے ۔ ہندوستان میں وفاقی طرز حکمرانی میں گورنر کی دستوری اہمیت ہوتی ہے اورا س عہدہ کی برتری سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم گورنرس کا طرز عمل بھی اسی طرح غیر نزاعی اور تعاون پر مبنی ہونی چاہئے تاکہ ریاستی کام کاج میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہوسکے اور عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والی حکومتیں عوام کی بہتری اور فلاح کیلئے اقدامات کو کسی تاخیر کے بغیر جاری رکھ سکیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ گذشتہ ایک دہے میں یہ صورتحال بتدریج تبدیل ہونے لگی ہے ۔ خاص طور پر ان ریاستوں میں حالات ٹھیک نہیںہیں جہاں غیربی جے پی حکومتیں قائم ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے اقتدار والی ریاستوں میں گورنرس کی جانب سے ریاستی حکومتوں کی جانب سے منظور کردہ بلز کو کلئیرنس یا منظوری دینے میں تاخیر کی جا رہی ہے ۔ ان بلوں کو روکا جا رہا ہے ۔ کسی طرح کی وجہ بتائے بغیر حکومت کی منصوبہ بندی میں رکاوٹ پیدا کی جا رہی ہے ۔ اگر کسی جائز اور واجبی وجہ سے گورنر اسمبلی اور کابینہ کا منظور کردہ کوئی بل روکتے بھی ہیں تو انہیں اس کی وجہ بتاتے ہوئے واپس حکومت کو بھیجنا چاہئے اور کچھ تجاویز بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ دوبارہ بل تیار کرنے کی ہدایت بھی دی جاسکتی ہے ۔ اس کام میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہئے تاہم ٹاملناڈو میں تقریبا 10 بلز ایسے ہیں جنہیں حکومت کی منظوری حاصل ہوئے تین سال گذر چکے ہیں اور وہ تین سال سے گورنر کے پاس منظوری کے منتظر ہیں۔ حکومت بارہا ان بلز کے تعلق سے توجہ دہانی کی کوشش کر رہی ہے لیکن یہ بلز منظور نہیں کئے جا رہے ہیں اور نہ ہی انہیں واپس بھیجا گیا ہے ۔ اسی طرح کے ایک معاملے میں پنجاب سے متعلق بھی ایک عدالت نے دیا تھا ۔ اس فیصلے کے تین دن بعد گورنر نے کچھ بلز کو صدر جمہوریہ کو روانہ کردیا جبکہ یہ بلز ان کے پاس تین سال سے زیر التواء تھے ۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر گورنر کے طرز عمل پر سوال اٹھایا ہے اور ان بلوں کو روکے رکھنے کی وجوہات دریافت کی ہیںاور ان کے طرز عمل کو پسند نہیں کیا ہے ۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جو طریقہ کار گورنر ٹاملناڈو نے اختیار کیا ہے وہ روایت سے الگ ہے اور اس بات کی وضاحت کی جانی چاہئے کہ ایسی کیا وجوہات ہیں کہ تین سال تک ان بلوں کو نہ منظوری دی گئی اور نہ حکومت کو واپس بھیجا گیا ۔ حالانکہ کچھ بلز کو ٹاملناڈو حکومت نے دوبارہ منظور کرتے ہوئے بھی گورنر کو روانہ کیا تھا ۔ سپریم کورٹ نے اس طرز عمل کو مسترد کردیا ہے اور کہا کہ ریاستی عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں ایسی رکاوٹیں پیدا نہیں ہونی چاہئیں ۔ عدالتی ریمارکس سے قطع نظر گورنر کو اپنی ریاست کے عوام کے تئیں ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ملک کے وفاقی طرز حکمرانی کو مستحکم کرنے کیلئے خیرسگالی کے جذبہ سے کام کیا جانا چاہئے ۔ گورنر ایک ریاست کے دستوری سربراہ ہوتے ہیں اور سیاسی وابستگیوں کو کام کاج کی راہ میں رکاوٹ بننے نہیں دیا جانا چاہئے ۔ ٹاملناڈو ہو یا اپوزیشن کے اقتدار والی دوسری ریاستیں ہوں وہاں یہ شکایت عام ہوگئی ہے کہ گورنر دستوری سربراہ کی بجائے مرکز کے نمائندہ اور آلہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں اور اس سے گورنر کے عہدہ کا وقار مجروح ہو رہا ہے ۔ ساتھ ہی ریاستوں کے عوام کو بھی مشکلات جھیلنی پڑ رہی ہیں۔ ملک میں کئی ریاستوں میں ایسی مثالیں دیکھنے میں آئی ہیں جہاں گورنرس کی جانب سے حکومتوں کے کام کاج کو پیشرفت سے محض اس لئے روکا گیا ہے کہ گورنرس نے ان سے متعلق بلز کو منظوری نہیں دی ہے ۔ اس طرز عمل کو اور ایسی روایت کو بدلا جانا چاہئے اور بلز کی منظوری عمل میں لائی جانی چاہئے ۔
گورنر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اگر کسی بل میں کوئی نقص محسوس کرتے ہوں تو اسے نظرثانی کیلئے ریاستی حکومت کو روانہ کیا جاسکتا ہے ۔ عہدیداروں کو طلب کرکے وضاحت پوچھی جاسکتی ہے لیکن بلوں کو تین تین برس تک روکے رکھنا سیاسی مقاصد پر مبنی ہی سمجھ میں آتا ہے ۔ کسی بھی ریاست میں عوام کے ووٹ کے ذریعہ منتخبہ حکومت کے اختیارات اور اس کے وقار کو بھی داؤ پر لگانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ ملک بھر میں گورنرس اور ریاستی حکومتوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ سیاسی وابستگیوں کو سرکاری کام کاج میں رکاوٹ بننے نہ دیں اور عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے خیرسگالی کے ماحول کو یقینی بنائیں۔